کوئٹہ: بلوچستان اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے محکمہ صحت بلوچستان کی طرف سے 3 ارب روپے استعمال کئے بغیر واپس کرنے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ محکمہ صحت کے حکام کی نا اہلی صوبے کے عوام پر ظلم ہے۔
آئندہ اس طرح ہوا تو سخت کارورائی عمل میں لائی جائے گی۔
15 دن کے اندر ریکارڈ فراہم کرنے میں ناکامی کے نتیجے میں کسی بھی آفیسر کو ایک سال کے لئے او ایس ڈی کیا جائے گا اور زبر دستی ریکارڈ قبضہ میں رکھنے پر اہلکار کی خلاف ایف آئی درج کی جائے۔
بلوچستان پبلک اکاونٹس کمیٹی کا اجلاس پیر کو چیئرمین اصغر علی ترین کی زیرصدارت منعقد ہوا۔
اجلاس میں کمیٹی کے ممبران فضل قادر مندوخیل، رحمت صالح بلوچ، سیکرٹری بلوچستان اسمبلی طاہرشاہ کاکڑ، ڈائریکٹر جنرل آڈٹ بلوچستان شجاع علی، اکاونٹنٹ جنرل بلوچستان نصراللہ جان، ڈائریکٹر آڈٹ بلوچستان ثناء اللہ، سیکرٹری محکمہ صحت، و ایڈیشنل سیکرٹری پبلک اکائنٹس کمیٹی سراج لہڑی، ایڈیشنل سیکرٹری محکمہ قانون سعید اقبال، میڈیکل سپرنٹنڈنٹ بی ایم سی ہسپتال ڈاکٹر سلطان لہڑی، ایگزیکٹیو ڈائریکٹر FJICD ڈاکٹر شیرین خان، پروونشل کوآرڈینیٹر ای پی آئی ڈاکٹر کمالان گچکی، ایگزیکٹیو ڈائریکٹر شیخ زید ہسپتال ڈاکٹر شیر احمد ساتکزئی، ایم ایس سول ہسپتال ڈاکٹر نوراللہ موسیٰ خیل، ڈائیریکٹر ایم ایس ڈی ڈاکٹر اسماعیل میروانی، محکمہ صحت کے مختلف ڈائریکٹرز، پروونشل کوآرڈینٹرز، پروجیکٹ ڈائریکٹرز، ڈاکٹر امین اللہ رئیسانی، ہمایون ترین، ڈاکٹر حضرت علی، ڈاکٹر محمد اسلم، پروفیسر لیاقت علی، روح الامین مینگل و دیگر نے شرکت کی۔
پبلک اکاؤنٹس کمیٹی (پی اے سی) نے مالی سال 2021-22 کے لئے اپروپریشین اکاؤنٹس اور محکمہ صحت کے 2022-23 کے آڈٹ پیراز کی جانچ پڑتال کی۔
کمیٹی نے محکمہ صحت کی جانب سے مختص فنڈز کو استعمال کرنے میں ناکامی پر شدید تشویش کا اظہار کیا جس میں اضافی 5 ارب روپے کے مطالبات کئے گئے اور محکمے نے کمزوری دکھا کر 3 ارب استعمال کئے بغیر واپس کر دئیے جو کہ محکمہ صحت کے حکام کی نا اہلی ہے اور صوبے کے عوام پر ظلم ہے۔
آئندہ اس طرح ہوا تو سخت کارروائی کی جائے گی۔
کمیٹی نے شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مریضوں کو ہسپتالوں میں ادویات کی تاخیر یا عدم فراہمی کی وجہ سے زندگی بچانے کے لئے ضروری و بنیادی ادویات موجود نہیں ہوتے ہیں جس کی وجہ مریض بغیر علاج کی موت کے شکار ہوتے ہیں۔
مجلس نے کہا کہ ہسپتالوں میں نصب آکسیجن پلانٹس غیر فعال رہتے ہیں جو نہ صرف عوام کے پیسوں کا نقصان ہے بلکہ ان مشینوں پر کام کرنے والے ملازمین بھی خزانے پر بوجھ ہیں۔
کمیٹی نے ایم ایس بولان میڈیکل کالج ہسپتال کو ہدایت کی کہ بی ایم سی غریب عوام کا ہسپتال ہے اس میں ہمیشہ آکسیجن نہ ہونے کا مسئلہ رہتا ہے۔
آکسیجن پلانٹ کو فوری طور پر اپ گریڈ کریں، اس بابت جتنی بھی رقم ضرورت ہوگی پی اے سی محکمہ خزانہ کو فنڈز جاری کرنے کے احکامات جاری کرے گی اور وزیراعلیٰ بلوچستان سے خصوصی گرانٹ کی سفارش کرے گی۔
آپ جلد از جلد اس بابت محکمہ صحت کو لیٹر لکھیں۔
کمیٹی نے محکمہ صحت کو ہدایت کی کہ وہ ہسپتالوں میں ادویات کی بروقت فراہمی کو یقینی بنائے اور جو فنڈز لیپس ہوئے ہیں جس کی نشاندہی اکائونٹنٹ جنرل نے کی ہے، اس بابت اور جتنے بھی غیر متعلقہ اسٹاف کو الاؤنسز جاری کئے گئے ہیں 15 دن کے اندر تحقیقات کر کے رپورٹ پی اے سی کو پیش کی جائے۔
غریب عوام کے پیسے کو کسی صورت بھی ضائع نہیں ہونے دیں گے۔
ڈی اے سی کے فیصلوں کے مطابق جو افسران انکوائری کرنے میں ناکام رہے ہیں ان کے خلاف فوری طور پر بیڈا ایکٹ کے تحت کارروائی کی جائے۔
کمیٹی نے بولان میڈیکل کالج (بی ایم سی) کے ایک ملازم کو معطل کرنے کی سفارش کی جس نے پورے محکمہ کو ہائی جیک کیا ہوا ہے۔
کمیٹی نے محکمہ صحت کو ہدایت کی کہ وہ فوری طور پر صوبے کے مزید جتنے بھی غیر فعال آکسیجن پلانٹس ہیں ان کو فعال کریں۔
مجلس نے کووڈ-19 کے دوران محکمہ کی جانب سے مہنگے ریٹس پر ایمبولینسوں کی خریداری پر سوال اٹھایا اور کہا کہ وینز خرید کر ان کو بعد میں modify کر کے ایمبولینس بنانا تھا تو اس کے ٹینڈر کو اوپن کر کے مختلف کمپنیوں کو مدعو کرنا چاہئے تھا۔
اس کروڑوں روپے کا ایک ٹھیکیدار کو ناجائز طور پر منافع دیا گیا جو کہ اس غریب صوبے پر ظلم ہے۔
کمیٹی نے واضح کیا کہ عوام کے لئے غیر ملکی امداد اور عطیات کا بھی آڈٹ کیا جا سکتا ہے کیونکہ جو پیسے عوام کے لئے سرکار کے اجازت سے آتے ہیں ان کی accountability بھی لازمی ہے۔
کمیٹی نے کہا کہ محکمہ صحت کی پیش رفت کی کڑی نگرانی کی جائے گی اور ضرورت پڑنے پر مزید کارروائی کرے گی۔
کمیٹی نے 957.354 ملین روپے کی ایک خطیر رقم جو کہ 29 جون کو چھوٹے چھوٹے رقم میں بنا کر مالی سال کے آخری دن اے جی آفس سے کیش کروانے پر شدید تشویش کا اظہار کیا۔
اس بابت 15 دن میں انکوائری کر کے رپورٹ پی اے سی کو پیش کرنے کی ہدایت کی اور مطمئن نہ ہونے پر کیس کو اینٹی کرپشن کے حوالہ کیا جائے گا۔
کمیٹی نے کہا کہ یہ بلز اے جی آفس کے حکام نے مالی سال کے آخری دن بغیر ٹینڈر کے کیسے پاس کیے، یہ ایک سوال ہے۔
چیئرمین پبلک اکاؤنٹس کمیٹی اصغر علی ترین نے محکمہ خزانے کے سیکرٹری کی عدم شرکت پر شدید برہمی کا اظہار کیا۔
چیئرمین اصغر علی ترین نے فنڈز کی ڈیمانڈ اور استعمال کئے بغیر واپسی کو بڑا جرم قرار دیتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ پیسہ مانگ کر استعمال کئے بغیر واپس کرنا ناقابل قبول ہے، خاص طور پر بلوچستان جیسے صوبے میں جہاں غربت اپنے انتہا کو چھو رہی ہے اور جہاں اسپتالوں میں لوگوں کو ایک پیناڈول کی گولی تک میسر نہیں ہے، جس سے عوام دربدر ہیں۔
چیئرمین نے ریکارڈ کی عدم فراہمی کے حوالے سے خبردار کیا کہ 15 دن کے اندر ریکارڈ فراہم کرنے میں ناکامی کے نتیجے میں کسی بھی آفیسر کو ایک سال کے لئے او ایس ڈی کیا جائے گا اور زبر دستی ریکارڈ قبضہ میں رکھنے پر اہلکار کی خلاف ایف آئی درج کی جائے۔
Leave a Reply