|

وقتِ اشاعت :   May 2 – 2016

کوئٹہ: پاکستان ورکرز کنفیڈریشن بلوچستان (رجسٹرڈ) کے زیر اہتمام مزدوروں کے عالمی دن کی مناسبت سے بلوچستان بھر تربت، نوشکی، قلات، خضدار، سبی، نصیر آباد، لورالائی، پشین، قلعہ سیف اللہ میں ہزاروں محنت کشوں پر مشتمل ریلیاں نکالی گئیں۔ مرکزی ریلی ریلوے اسٹیشن کوئٹہ سے نکالی گئی جو مختلف شاہراہوں سے ہوتی ہوئی منان چوک پرجلسے کی شکل اختیار کیا۔ جلسے سے پاکستان ورکرز کنفیڈریشن بلوچستان کے رہنماؤں محمد رمضان اچکزئی، خان زمان، بشیر احمد رند،ضیاء الرحمن ساسولی،عبدالمعروف آزاد، محمد رفیق لہڑی، محمد قاسم، حاجی عزیز اللہ،عابد بٹ ،نور محمد ،بخت نواب، سرزمین افغانی، عبدالحئی،عبدالباقی لہڑی، عبدالظاہر ریئسانی، جانان خان کاکڑ، محمد یوسف اور دیگر نے 1886 ؁ء کے جان نثاروں کو زبردست خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ 1886 میں غلام اور بے بس مزدوروں کیلئے قربانیاں دے کر جس طرح ان جان نثاروں نے اپنے سفید جھنڈے کو سرخ بنا دیا انہی کی بدولت آج اوقات کار اور قانون سازی موجود ہے لیکن آج مزدور تقسیم درتقسیم اور مجبوری کی زنجیروں میں جھکڑ کر نہ صرف دنیا بلکہ ملکی سطح پر بھی کمزور ہو گئے ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ ظلم اور ناانصافی کے خلاف بے بسی کی زندگی گزارنے کی بجائے جدوجہد کرکے اپنا حق چھین لیں اور اس راستے میں اپنی جان کی بھی پرواہ نہ کرے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت ملک میں ناانصافی عروج پر ہے ۔ امیر، امیر تر ہو رہا ہے اور غریب، غریب تر ہو کر فاقہ کشی اور بیماری سے زندہ درگو ہو رہے ہیں ۔ جمہوریت الیٹ طبقے کو حق حکمرانی دے رہا ہے۔ مراعات یافتہ طبقات کے امراء ووٹ بلٹ اور پیسوں کی لالچ سے لیتے ہیں جبکہ اس ملک کا غریب اور محنت کش طبقہ غلامی کی زنجیروں میں جھکڑ کر ووٹ دے رہے ہیں۔ ووٹ لینے کے بعد حکمران طبقہ پارلیمنٹ میں اپنے اپنے خاندان کے افراد اور کنبے کے ساتھ براجماں ہو کر ملک کے مسائل کو حل کرنے میں ناکام اور اپنے مفادات کے حصول کیلئے لوٹ مار اور کرپشن کا بازار گرم کئے ہوئے ہیں۔یہ مراعات یافتہ اور حکمران طبقہ زکام کے علاج کیلئے لندن ، فرانس اور امریکہ جا تے ہیں۔ ان کی میٹنگز اور ملاقاتیں بھی امریکہ، لندن اور فرانس کی پر فضا اور عالیشان ہوٹلوں میں ہوتے ہیں۔ اسی طبقے کے لوگوں میں سے اب بعض لوگوں سے متعلق منظر عام پر آرہا ہے کہ وہ سی آئی اے، راء اور ایم آئی سکس اور دیگر ایجنسیوں سے ہدایات لے کر ملک پر بیرونی مفادات کے تحفظ کیلئے ہر قسم کی بے شرمی کے اقدامات سے گریز نہیں کرتے۔ مقررین نے کہا کہ دہشتگردی کا خاتمہ اور بلا امتیاز احتساب اس وقت ممکن ہو سکتا ہے کہ جب اس ملک میں یکساں نظام عدل موجود ہو۔ آج عدالت میں جاتے ہوئے مزدور خوفزدہ ہوتے ہیں اور انھیں عدالتوں سے انصاف کی فراہمی کی امید نہیں رہی ہے۔ آئین پاکستان ہر قسم کے استحصال کی ممانعت کرتا ہے ۔ اسلا می اصولوں کے خلاف آئین کسی بھی قانون بنانے کی اجازت نہیں دیتا۔ آئین اونچ نیچ کے خاتمے کی یقین دہانی کراتا ہے لیکن افسوس کہ اس ملک میں ایک طرف بعض ملٹی نیشنل اور قومی اداروں کے سربراہان اور حکام کروڑوں روپے کی تنخواہیں لیتے ہیں حتیٰ کہ عدلیہ کے جج صاحبان کی تنخواہیں بھی سات سے آٹھ لاکھ روپے ہیں اور دوسری طرف غریب محنت کشوں کو 12 ہزار روپے کم سے کم اجرت بھی نہیں مل رہا ہے۔ قومی اداروں کو اونے پونے اپنے قریبی رشتہ داروں اور دوستوں کو فروخت کرکے اس کے ذریعے کرپشن کی جاتی ہے۔ آج پانامہ لیکس نے ثابت کر دیا ہے کہ حکمران طبقے کے اربوں ڈالرز آف شور کمپنیوں میں موجود ہیں۔ پانامہ لیکس پر سیاست ہو رہی ہے اور اس میں بھرپور احتساب سے حکمران اور اپوزیشن پارٹیاں گریزاں ہیں کیونکہ اس حمام میں مراعات یافتہ طبقہ تمام کا تمام ننگا ہے۔ مقررین نے کہا کہ ملک میں ہر نوجوان مرد اور عورت کو روزگار دینے، 72 قوانین کو یکجا کر کے چھ قوانین بنانے ، مزدوروں کیلئے قائم اداروں ، اولڈ ایج بینیفٹ، ورکرز ویلفیئر فنڈ، سوشل سیکورٹی، محکمہ محنت ، این آئی آر سی اور اس قسم کے دوسرے اداروں سے کرپشن کا خاتمہ کیا جانا چاہیے۔ محنت سے وابستہ ادارے محنت کشوں کو ایک دوسرے کے ساتھ دست و گریباں کرنے کی بجائے ان کے مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرنا چاہیے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتیں حقیقی کنفیڈریشنوں، فیڈریشنوں اور یونینوں سے مشاورت اور رابطے کے ذریعے محنت کشوں کے مسائل کو معلوم کرکے ان کے حل کیلئے اقدامات اٹھائیں۔ انہوں نے کہا کہ مزدوروں کو متحد ہو کرامن کی بحالی،کرپشن کے خاتمے، انصاف ،روزگار، تعلیم، صحت پینے کے صاف پانی،سرچھپانے کیلئے مکان ، جسم کو ڈھانپنے کیلئے کپڑے کی فراہمی اور دیگر مسائل کے حل کیلئے بھرپور جدوجہد کرنی چاہیے۔ انہوں نے حکومت سے پر زور مطالبہ کیا کہ وہ مہنگائی کے تناسب سے ملازمین کی تنخواہیں دو تولہ سونے کے برابر کرنے، بجٹ میں ملازمین کی تنخواہوں میں کم سے کم 50 فیصد اضافہ کرنے، نجکاری کو ترک کرکے اداروں میں پروفیشنل، ایماندار اور باصلاحیت لوگوں کو تعینات کرکے سیاسی بنیادوں پر فیصلوں کا خاتمہ کرنے، تمام فوت شدہ ملازمین کے بچوں کو بھرتی کرنے، پبلک اور پرائیویٹ سیکٹر میں روزگار کے ذرائع پیدا کرنے، سی پیک منصوبے کو بلوچستان اور خیبر پختونخواہ سے پہلے مکمل کرنے، کانکنی ،زراعت ، ماہی گیری اور دیگر شعبوں سے وابستہ مزدوروں کیلئے سیفٹی کے اقدامات کرنے، انھیں ٹریڈ یونین کا حق دینے، بے روزگاروں کی بھی ٹریڈ یونین بنانے، تمام انفرادی اور اجتماعی کام کرنے والوں کو ویلفیئر کے اداروں میں رجسٹریشن کا حق دینے، بیرون ملک ملازمتوں میں بلوچستان کے نوجوانوں کو ہنر مندی سیکھا کر ترجیح دینے، شہریوں کے جان و مال کی حفاظت کرنے ، قاتلوں کو کیفر کردار تک پہنچانے، ریاستی اداروں کی بجائے تمام غیر ریاستی اداروں اور جتھوں کوغیر مسلح کرنے ، اسمبلی کے ممبران کو بھی شہر میں عام شہریوں کی طرح چلنے پھرنے کا پابند بنانے اور دیگر مسائل کے حل پر زور دیا گیا۔ اس موقع پر متعدد قراردادیں پیش کی گئیں جس کی مظاہرین نے منظوری دی۔