کوئٹہ: بلوچستان کے 25 اضلاع میں قائم 90 لائبریریوں میں سے 60 فعال جبکہ 30 ملازمین کے مسائل کی وجہ سے غیر فعال ہیں، زمین نہ ہونے کے باعث ڈویژنل کلچرل کمپلکس منصوبہ تین سال سے التواء کا شکار ۔بلوچستان اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے ثقافت ، آرکائیوز ، سیاحت اور آثار قدیمہ سے کا اجلاس چیئرمین میر رحمت صالح بلوچ کی صدارت میں منعقد ہوا۔
اجلاس میں کمیٹی کے ارکان حادیہ نواز اور صفیہ فضل ،سیکرٹری ثقافت وسیاحت نور محمد جوگیزئی سمیت دیگر بھی موجود تھے ۔
اجلاس کے شرکاء کو بتایا گیا کہ محکمہ میں اسوقت 1358 منظور شدہ آسامیاں ہیں ،
جن میں سے 879 پر ہیں جبکہ دیگر آسامیاں خالی ہیں ۔شرکاء کو بتایا گیا کہ صوبے کے 25 اضلاع میں 90 لائبریریاں موجود ہیں ، جن میں سے 60 فعال ہیں اور 30 ملازمین کے مسائل کی وجہ سے غیر فعال ہیں۔
500 ملین مالیت کے ڈویژنل کلچر کمپلیکس پر کام جاری ہے ، لیکن کئی ڈویژنوں میں زمین ملنے کے مسائل ہیںجسکی وجہ سے تین سال پہلے دی گئی رقم کے باوجود کام نہیں ہوسکاساتھ ہی کوئٹہ میں اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹس پروجیکٹ میں اسکیم کی منظوری کے باوجود زمین نہ ہونے کے باعث کام نہیں ہوسکا ہے۔
شرکاء کو بتایا گیا کہ محکمے نے معروف فنکاروں کو مالی مدد فراہم کرتے ہوئے بلوچستان آرٹسٹ ویلفیئر فنڈ پالیسی کا آغاز کیا ہے اس پالیسی کے تحت فنکاروں کو بالترتیب 40,000 ، 30,000 اور 20,000 ماہانہ ملتے ہیں۔
اجلاس میں کمیٹی کے اراکین نے اس بات پر تشویش کا اظہار کیا کہ بلوچی پشتو اور براوہی اکیڈمیز محکمہ ثقافت کے بجائے محکمہ تعلیم کے تحت آتی ہیں۔
اراکین نے متفقہ طور پر ان اکیڈمیوں کو محکمہ ثقافت میں منتقل کرنے کے لیے اسمبلی میں ایک قرارداد پیش کرنے پر اتفاق کیا۔
اس تبدیلی کا مقصد محکمہ ثقافت کے مقاصد کے ساتھ اکیڈمیوں کی توجہ کو بہتر طریقے سے ہم آہنگ کرنا ہے۔کمیٹی نے پروجیکٹ کو بچانے کے لئے ان مسائل کو حل کرنے کی فوری ضرورت پر زور دیا۔
چیئرمین رحمت بلوچ نے کہا کہ ہمارے حقیقی سفیر فنکار ہوتے اور ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمیں انکی مدد کرنی چائیے۔ کمیٹی ان اہم مسائل کو حل کرنے اور بلوچستان کے بھرپور ثقافتی ورثے کے تحفظ اور فروغ کو یقینی بنانے کا عہد کیا۔
Leave a Reply