کوئٹہ : بلو چ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کے زیر اہتمام 3سال سے جبری طور پر لا پتہ سہیل اور فصیح بلوچ کی عدم بازیابی کے خلاف بلوچستان یونیورسٹی چوک سے احتجاجی ریلی نکالی اور کوئٹہ پریس کلب کے سامنے احتجاجی مظاہرہ کیا گیا
ریلی میں بلوچ یکجہتی کمیٹی اور لاپتہ افراد کے اہلخانہ بھی شریک تھے مظاہرین نے بینرز اور پلے کارڈ اور لاپتہ افراد کی تصاویر اٹھا رکھی تھی مظاہرے میں ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ ، بیبو بلوچ، ڈاکٹر صبیحہ بلوچ ،بیبرگ بلوچ،سمیت دیگر بھی موجود تھے
احتجاجی مظاہرین سے مقررین نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے نوجوانوں کو تعلیمی اداروں سے لاپتہ کیا جا رہا ہے
آج دو لاپتہ ہوئے ہیں تو کل پتہ نہیں کتنے لاپتہ ہوں گے طاقت ور قوتوں اور ریاست نے ہمیں ڈرایا ہے جب بھی بلوچ اپنے حقوق کیلئے آواز بلند کر تے ہیں انہیں ڈرانے کی کوشش کی جاتی ہے چھوٹے بچے بھائی احتجاج کرتے ہیں اور وہ کہتے ہیں
کہ ہمارا کیا قصور ہے ہمارا قصور صرف بلوچستان کی سر زمین کا وارث اور بلوچ ہو نا ہے ہم اپنے وسائل اور حقوق کے حصول کی بات کرتے ہیں جیسے سہیل اور فصیح بلوچ کرتے تھے یہ عام بلوچ طالب علم تھے یہ سیاست کے ذریعے اپنے بلوچستان کیلئے کچھ کرنا چاہتے تھے گزشتہ 3سال سے ریاستی عقوبت خانوں کی کالی کوٹھڑیوں میں پڑے ہوئے ہیں مقررین نے کہا کہ جو مذاکرات کرنے آئے تھے
پارلیمنٹ کی طرف سے قبائلی سسٹم میں انہیں سردار کہتے ہیں ،اس وقت سے ریاست کے دلال ہیں ان کو سیٹ مبارک ہو آج بھی پارلیمنٹ میں ہیںاصل میں یہ لوگ طاقت ور قوتوں کے ساتھ جاکر ہماری سرزمین کا سودا کرتے ہیں
بلوچستان میں ایک مہینے میں 53 طلبا کو جبری طور پر گمشدہ کیا گیا ان کیلئے بلوچ یکجتی کمیٹی نے تحریک چلائی بلوچستان ،سندھ میں احتجاجی ریلیاں نکالیں اس کے باوجود راولپنڈی میں ایک فلیٹ پر چھاپہ مار کر 10بلوچ طلبا کو لاپتہ کیا گیا ہے
ان میں سے متعددطلبہ کہ آج امتحان تھے انکی با حفاظت بازیابی کیلئے جد جہد جاری رکھنا ہوگی بصورت دیگر ہم بھی لا پتہ ہوجائیں گے
مقررین نے کہا کہ لاپتہ افراد پر کوئی جرم ثابت نہیں ہو سکا بلوچوں کی نسل کشی کی جا رہے گزشتہ 70سالوں سے بلوچستان میں ظلم ہو رہا ہے اور غلط پالیسیوں کی وجہ سے بلوچستان میں آگ جل رہی ہے
جو سب کو جلا دے گی بلوچستان کے وسائل کو آج بھی بے دریغ طریقے سے حاصل کیا جا رہا ہے مظاہرین اپنے مطالبات کے حق میں نعرے بازی کرتے ہوئے پر امن طور پر منتشر ہوگئے ۔
Leave a Reply