|

وقتِ اشاعت :   4 hours پہلے

بلوچستان کے ضلع مستونگ میں ہونے والے ایک بم دھماکے میں پانچ بچوں اور ایک پولیس اہلکار سمیت سات افراد جاں بحق جبکہ 20 سے زائد افراد زخمی ہوئے ہیں۔

جاں بحق ہونے والوں میں 5 اسکول کے بچے اور ایک پولیس اہلکار جبکہ ایک راہگیر شامل ہے۔

سرکاری حکام کے مطابق حملے کا ہدف پولیس کی گشتی گاڑی تھی، تاہم اس کی زد میں ایک اسکول وین آ گئی۔

بم دھماکہ مستونگ میں صبح آٹھ بج کر 35 منٹ پر ہوا۔

حملے میں زخمی ہونے والوں کو نواب غوث بخش رئیسانی میموریل ہسپتال اور مستونگ ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر ہسپتال میں داخل کرا دیا گیا، تاہم بعد میں ان میں سے 11 زخمیوں کو کوئٹہ ٹراما سینٹر منتقل کر دیا گیا۔

اسپتال انتظامیہ کے مطابق کوئٹہ منتقل کیے گئے زخمیوں میں ایک 5 سالہ لڑکی اور ایک 9 سال کا لڑکا بھی شامل ہے۔

ان زخمیوں میں سے پانچ کی حالت تشویش ناک بتائی گئی ہے۔

وزیر اعظم شہباز شریف اور وزیر اعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی دونوں نے اس بم دھماکے کی مذمت کی ہے اور اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ ملک سے دہشتگردوں کے خاتمے تک ان کے خلاف جنگ جاری رہے گی۔

وزیر اعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی نے مستونگ دھماکے کی مذمت کرتے ہوئے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر ایک پوسٹ میں شہید ہونے والے پولیس اہلکار اور معصوم بچوں کے لواحقین سے اظہار افسوس بھی کیا۔

بہرحال یہ انتہائی دلخراش واقعہ ہے یقینا جو بچے شہید ہوئے ہیں ان ننھے پھولوں کا جنازہ جب گھر پہنچا ہوگا تو صف ماتم بچ گیا ہوگا۔

والدین اور شہید ہونے والے بچوں اور بچیوں نے مستقبل کیلئے جو خوبصورت خواب اپنے ذہنوں میں بنائے رکھے تھے وہ دہشتگردی کی بھینٹ چڑھ گئے۔

جو زخمی بچے ہیں ان کے ذہنوں پر اس حملے کے کیا اثرات مرتب ہونگے، وہ بچے یہی سوچ رہے ہونگے کہ ان کا کیا قصور کہ وہ اس دہشت گردی کا نشانہ بنے۔

بہرحال اسکول کے قریب دہشت گردانہ حملہ انسانیت کے خلاف ہے جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔

دہشتگردی کے اس عمل کو کسی بھی سطح پر کوئی اخلاقی حمایت حاصل نہیں بلکہ یہ نفرت کو مزید بڑھاوادے گا یہ اخلاق سے عاری عمل ہے جہاں ننھے پھول جیسے بچوں کو بھی دہشت گردی کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔

ذرا تصور کیجیے کہ صبح سویرے والدین اپنے بچوں کو اسکول بھیجنے کیلئے تیار کررہے تھے اور بچے بھی والدین سے ناز و نخرے کرکے فرمائشیں کررہے تھے۔

بچے اپنے اسکول میں آج کلاس روم میں سہیلیوں اوردوستوں کے ساتھ پڑھائی، کھیل کود جیسے حسین خیالات لے کر اسکول جاتے ہوئے جھوم رہے تھے کہ اس وحشت ناک حملے نے سب کچھ خاک میں ملا دیا۔

کیا ان گھروں کے آنگن کو ویران کرکے تسکین ملے گی یا پھر مقاصد پورے ہوں گے یقینا نہیں بلکہ یہ دہشت گردوں کیلئے ایک بھیانک خواب ہی ثابت ہوگا جو دھماکے کے دوران شہداء کی چیخ و پکار سے آہ نکلی ہے۔

شہداء کے لواحقین جنازہ اٹھاکر دہشت گردوں کے خاتمے کیلئے بددعا کرتے ہونگے۔

بہرحال سانحہ مستونگ پر بلوچستان سمیت پورا ملک سوگ میں ہے شہداء کو بھلایا نہیں جائے گا اور زخمیوں کی جلد صحت یابی کیلئے سب ہی دعا گو ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *