|

وقتِ اشاعت :   4 hours پہلے

بلوچستان سے منسلک سرحدوں پر ٹریڈ کی بندش کا مسئلہ اب تک حل نہیں ہوسکا ،بارڈر بندش کے باعث سرحدی علاقوں کے تاجرا ور عوام معاشی طور پر بری طرح متاثر ہیں چونکہ پاک ایران سرحدی علاقوں کے لوگوں کا ذریعہ معاش ایرانی تیل سمیت دیگر اشیاء سے جڑی ہے اس کے علاوہ یہاں کوئی اورروزگار کا ذریعہ نہیں۔
پاک ایران سرحد پر دہائیوں سے کاروبار چلتا آرہا ہے دونوں اطراف کے تاجرا ور عوام بڑے اور چھوٹے کاروبار کے ذریعے اپنا گزر بسر کرتے ہیں ۔
بلوچستان کی تمام سیاسی و مذہبی جماعتیں اس سے بخوبی واقف ہیں کہ سرحد پر ٹریڈ نہ ہونے سے بڑے پیمانے پر لوگ معاشی حوالے سے متاثر ہیں مگر ایسی کوئی کوشش نہیں کی جارہی اورکوئی راستہ نہیں نکالا جارہا کہ سرحد پر کاروبار کی بندش ختم کی جاسکے۔
اہم مسئلہ تیل کی ترسیل ہے حکومت سمجھتی ہے کہ اگرایرانی تیل کی ترسیل ہوگی تواس سے پاکستان میں تیل کی کمپنیوں کو مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑے گا جبکہ قومی خزانے کو نقصان اور کاروبار پر بھی منفی اثر پڑے گا کیونکہ کمپنیاں لائسنس لے کر کاروبار کرتی ہیںاورباقاعدہ ٹیکس بھی دیتی ہیں جبکہ اسمگلنگ سے کاروبار اور ٹیکسز محاصل متاثر ہوگا۔
حکومتی موقف اپنی جاگہ مگر سرحدی کاروبار کیلئے کوئی راستہ نکالنا بھی ضروری ہے تاکہ وہاں کے لوگ فاقہ کشی کا شکار نہ ہوں۔
گزشتہ روز کوئٹہ پریس کلب میں رخشان ،مکران بارڈر ٹریڈ الائنس بلوچستان کے عہدیداران نے مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران مطالبہ کیا کہ پاک ایران بارڈر پر ہفتے میں تین دن چھٹی کا نوٹیفکیشن واپس لیا جائے اور بلوچستان بھر میں ایرانی تیل کی ترسیل پرعائد پابندی ختم کی جائے بصورت دیگر 18 نومبر کو بلوچستان بھر میں شٹرڈائون کیا جائے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ سرحدی علاقوں میں زراعت اور صنعت سمیت روزگار کے دیگر ذرائع نہ ہونے کی وجہ سے لوگوں کا گزر بسر بارڈر ٹریڈ سے وابستہ ہے ،بارڈر ٹریڈ کی بندش سے لوگ دو وقت کی روٹی کیلئے ترس رہے ہیں ،بارڈر بند کرنا ہمارے معاشی قتل کے مترادف ہے ، بارڈر بند ہونے سے 35 لاکھ سے زائد لوگ براہ راست متاثر ہورہے ہیں۔
گھروں میں نوبت فاقہ کشی تک پہنچ چکی ہے ، اگر کاروبار کرنے نہ دیا گیا تو حالات بد سے بدتر ہو جائیں گے جس کے منفی اثرات معاشرے پر پڑیں گے۔
انہوں نے کہا کہ تمام کراسنگ پوائنٹس کھولنے کے احکامات پر عملدرآمد کو یقینی بنایا جائے ، بارڈر ٹریڈ میں اصل شناختی کارڈ کی موجودگی پر مالک کی موجودگی کی شرط ختم کی جائے تاکہ سرحدی علاقوں سے منسلک لوگوں کی مشکلات میں کمی آسکے۔
بہرحال صوبائی وزیر میر ظہور بلیدی نے اس مسئلے کے حل کی جلد یقین دہانی کرائی تھی مگر حکومتی سطح پر کوئی واضح پالیسی اب تک سامنے نہیں آئی ہے اور نہ ہی متاثرین کے ساتھ بات چیت کیلئے کوئی کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جس سے اس دیرینہ مسئلے کا مستقل حل نکالا جاسکے۔
بلوچستان کے سرحدی علاقوں میں معاشی بحالی کیلئے اقدامات اٹھانے کی ذمہ داری حکومت کی ہے تاکہ سرحدی لوگوں کا معاشی مسئلہ حل ہوسکے۔
حکومت اور اپوزیشن جماعتوں پر مشتمل کمیٹی تشکیل دی جائے جو ٹریڈ الائنس کے ذمہ داران کے ساتھ بات چیت کرکے مسئلے کا حل نکالے تاکہ سرحد پر کاروبار معمول پر آسکے اور جو پالیسی بنائی جائے اس کی خلاف ورزی نہ ہو ،جہاں قانونی نقص ہو اس معاملے کو بھی باہمی رضا مندی سے حل کیا جائے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *