|

وقتِ اشاعت :   4 hours پہلے

کوئٹہ: چیف جسٹس عدالت عالیہ بلوچستان محمد ہاشم خان کاکڑ، جسٹس محمد کامران خان ملاخیل اور جسٹس محمد عامر نواز رانا پر مشتمل عدالت عالیہ بلوچستان کے تین رکنی بینچ نے 10 سالہ محمد مصور کی اغوا کا فوری نوٹس لیتے ہوئے حاجی راز محمد ولد حاجی نورالدین کی طرف سے محمد مصور کی بازیابی کے لیے جمع کرائی گئی درخواست پر اسے فوری طور پر آئینی درخواست میں تبدیل کر دیا۔

تین رکنی بینچ کے معزز ججز نے ایڈیشنل چیف سیکرٹری ہوم اور ڈپٹی انسپکٹر جنرل اف پولیس کوئٹہ کو حکم دیا کہ محمد مصور کے کیس کی تفتیش اپنے نگرانی میں کریں اور کیس میں پیش رفت سے متعلق عدالت علیہ بلوچستان کو آگاہ رکھا جائے۔

اے سی ایس (ہوم) کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ کوئٹہ میں فرانزک سائنس لیبارٹری کے قیام کے سلسلے میں پیش رفت رپورٹ اگلی سماعت سے پہلے جمع کرائیں، جبکہ ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ پراجیکٹ ڈائریکٹر، کوئٹہ سیف سٹی پراجیکٹ کی حاضری حاصل کرے اور بینچ کے سامنے 19 نومبر سماعت کی اگلی تاریخ کو پیش کریں۔ اس آرڈر کی کاپی ایڈووکیٹ جنرل آفس کو بھیجی جائے تاکہ تمام متعلقہ حکام کو معلومات اور تعمیل کے لیے آگے بھیج دیں۔

سماعت کے دوران معزز بینچ کو بتایا گیا کہ سیف سٹی پروجیکٹ کے تحت، اب تک 830 کیمرے نصب کیے جا چکے ہیں، لیکن بدقسمتی سیجن میں سے 630 کیمرے ناقص/ خراب ہیں۔

کیمروں کی خرابی کی وجوہات یا تو آئی ٹی ڈیپارٹمنٹ یا اس معاملے کے لیے اس کے پروجیکٹ ڈائریکٹر (PD) کو سب سے زیادہ معلوم ہیں۔ یہ حیران کن بات ہے کہ زیر بحث منصوبہ 2013 میں شروع ہوا تھا اور تقریباً 11 سال گزر جانے کے باوجود یہ ابھی تک مکمل نہیں ہوسکا ہے۔

اس معاملے کے پیش نظر، چیف سیکرٹری حکومت بلوچستان کو ہدایت کی گئی ہے کہ کوئٹہ سیف سٹی پروجیکٹ کے حوالے سے پیر 18 نومبر 2024 کو انسپیکٹر جنرل پولیس بلوچستان، اے سی ایس (ہوم)، سیکرٹری فنانس ڈیپارٹمنٹ کے ساتھ ساتھ سیکرٹری انفارمیشن ٹیکنالوجی، کے ساتھ ایک اجلاس طلب کریں۔

اور اگلی تاریخ سماعت پر جامع رپورٹ جمع کروائیں۔

قبل ازیں عدالت عالیہ بلوچستان کے حکم پر انسپیکٹر جنرل بلوچستان پولیس، ڈی آئی جی پولیس کوئٹہ، اے سی ایس ہوم اور کمشنر کوئٹہ کے ساتھ ساتھ ایڈووکیٹ جنرل بلوچستان کو محمد مصور کی کیس سے متعلق نوٹس جاری کیے گئے۔

جس کے جواب میں انسپکٹر جنرل بلوچستان پولیس، اے سی ایس (ہوم)، ڈی آئی جی کوئٹہ اور کمشنر کوئٹہ موجود ہیں۔ آئی جی پی کا کہنا ہے کہ پولیس مغوی کی بحفاظت بازیابی کے لیے ہر ممکن کوشش کے ساتھ کوئی کسر نہیں چھوڑے گی۔ اور اس سلسلے میں جیو فینسنگ کے علاوہ دیگر تمام ممکنہ انسانی ذہانت اور تکنیکی وسائل کو ضروری کام کرنے کے لیے استعمال کیا جائے گا۔

چونکہ ہمیں اطلاع ملی ہے کہ کیس کی تفتیش پولیس کے ”سیریس کرائم انویسٹی گیشن ونگ” (SCIW) کو سونپی گئی ہے۔

یہاں یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ یہ اسلامی جمہوریہ پاکستان 1973 کے آئین کے آرٹیکل 9 کے تحت ایک بنیادی حق ہے، جو آزادی کے حق، قید، نظر بندی اور اغوا سے تحفظ کی ضمانت دیتا ہے۔ تاہم اس بات پر بھی زور دیا گیا ہے کہ شہریوں کی آزادانہ نقل و حرکت کو کسی بھی بہانے سے روکا نہ جائے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *