|

وقتِ اشاعت :   4 hours پہلے

کوئٹہ : بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے مرکزی کمیٹی کا تیسرا دو روزہ اجلاس مرکزی چیئرمین جیئند بلوچ کے زیرِ صدارت شال میں منعقد ہوا جبکہ اجلاس کی کارروائی مرکزی سیکرٹری جنرل حسیب بلوچ نے چلائی۔

اجلاس کا باقائدہ آغاز شہدائے بلوچستان و دنیا کے تمام محکوم انقلابی شہداء کی یاد میں دو منٹ کی خاموشی سے کیا گیا۔

اجلاس میں سیکرٹری رپورٹ، عالمی و علاقائی تناظر، تنظیمی امور، تنقید برائے تعمیر اور آئندہ کے لائحہ و دیگر ایجنڈاز زیرِ بحث رہے۔

بحث کا آغاز کرتے ہوئے مرکزی قائدین نے کہا کہ آج کی دنیا جس کا ہم حصہ ہیں اسے انسانی تاریخ کے اہم بحرانات کا سامنا ہے، جہاں ایک جانب ہمیں ایسی آفتناک جنگوں کا سامنا ہے جس نے آج نصف سے بیش تر دنیا کو اپنی تاریکیوں اور خونی رنگ رلیوں کے لپیٹ میں لیے رکھا ہے۔

ان تمام تر جنگوں کو محض تاریخی اتفاقات کے طور پر نہیں لیا جاسکتا بلکہ یہ بحرانات سرمایہ دارانہ نظام میں موجود فطری تضادات کے سبب ہیں۔

جہاں مختلف سامراجی قوتیں اپنے منافع کی ہوس کو تسلی بخشنے کے لیے ساری دنیا کو جنگی تاریکیوں میں دھکیلنے کے لیے ہمہ وقت تیار ہیں، جس کی ایک جھلک مشرق وسطیٰ میں فلسطینی سرزمین پر اسرائیلی فوج کشی ہے، اس تنازعہ کے حالیہ ایک سال کے اندر اب تک اسرائیل 44300 فلسطینیوں کو موت کے گھاٹ اتار چکی ہے۔

جبکہ فلسطینی عوام لاکھوں کی تعداد نقل مکانی اور ہجرت پر مجبور ہیں، یہ جنگی اکھاڑا ہر گزرتے دن کے ساتھ مزید وسعت اختیار کرتا جارہا ہے، اور عرب دنیا کیافتادگان خاک کے لیے نئی مصیبتوں کے انبار کھڑی کرتا جارہا ہے۔

جبکہ نام نہاد انسانی حقوق کے ٹھکیدار عالمی سرمایہ دارانہ جمہوریت کے عالمی سپہ سالار ادارے ان جنگی ہولناکیوں کو روکنے یا ان میں کمی لانے میں اب تک بے بس نظر آرہے ہیں۔

بلکہ انتہائی منافقانہ انداز سے اسرائیل کی پشت پناہی کو بھی تیار ہیں۔

قائدین کا کہنا تھا کہ جنگی المناکیوں کی داستان محض مشرق وسطیٰ تک محدود نہیں بلکہ اپنے 200 سالہ ارتقائی سفر میں سرمایہ دارانہ نظام ایک گلوبل نظام کے طور پر انسانی دنیا کے تمام تر کونوں میں اپنی جڑوں کو مظبوط کرنے میں کامیاب ہوئی ہے، اسی سبب اس کے بحرانات کا بھی اپنی اساس میں عالمی ہونا ناگزیر ہے۔

میڈل ایسٹ کی طرح تیسری دنیا بھی مکمل طور پر ایک جنگی کیفیت میں مبتلا نظر آتی ہے۔

افریقی براعظم کو تاریخ کے اہم ترین بحرانات کا سامنا ہے، دوسری جنگ عظیم کے بعد افریقی براعظم میں ابھرنے والی نومولود آزاد ریاستوں کو سرمایہ داری نے پاکستان کی طرح گیریزن ریاستوں کے طور پر سرمایہ دارانہ عالمی نظام کے اندر پیوست کرکے نیوکالونئیل سیٹلائیٹ ریاستوں کے طور تشکیل دیا تھا جہاں جمہوری روایتوں اور عوامی طاقت و خواہشات کو ہمیشہ اپنی زرخرید فوج شاہی کے ذریعے روندھا گیا۔

ان ریاستوں میں ملٹری بیوروکریسی مقتدر قوتوں کے طور پر ابھر آئی لیکن طاقت کی آپسی کشمکش کے سبب دوسری جنگ عظیم سے لیکر اب تک افریقی براعظم میں 220 کے قریب فوجی کودتا ہوئے ہیں۔

جو حالیہ برسوں میں سرمایہ درانہ سامراجی دھڑے بندیوں کے سبب ان مقامی فوجی نوکر شاہی میں بھی طاقت کی چپقلشوں میں اضافہ ہوا ہے، جس کی واضح مثال سوڈان، گیبون میں ہونے والی ملٹری کودتا ہیں جو اس امر کا عندیہ ہے کہ یہ نیو کالونیل ریاستیں مزید سرمایہ درانہ نظام کے تضادات اور بحرانات کا بوجھ اٹھانے میں ناکام ہیں۔

وہیں دوسری جانب کینیا کی حالیہ بغاوتیں آئی ایم ایف کے قرضوں کے معاشی جھال میں پھنسی نو آبادیاتی ریاستوں میں عوامی ابھار ریاستوں میں موجود شدید غم و غصّے کا اظہار کررہی ہیں بلکہ ریاستوں کے وجود سے انکاری ہیں، بہر کیف انقلابی پروگرامات کی خلاءؿ آج بھی ان تحریکوں پر چھایا ہوا ہے۔

اگر یہ استحصال کے ستائے محکوم عوام ان تحاریک کو انقلابی ڈگر پر گامزن نہیں کرتے تو جلد یا بہ دیر رجعت پرست و بنیاد پرست قوتیں اس خلاءؿ کو پْر کرنے کا کام کرینگی۔

عرب بہار کے بعد مشرق وسطیٰ کی آج تک کی صورتحال اس امر کی جانب واضح نشاندہی کرتے ہیں۔

عالمی منظر نامہ پر انتشار اور افراتفری کی کیفیات چھاء ہوئی ہیں، حال ہی میں بولیون آرمی چیف اور ایک نیول سربراہ کے سرپرستی میں ہونے والی ملٹری کودتا کو بولیون حکومت اور عوامی مزاحمت نے پسپا کیا، اور سیاسی جماعتوں نے مل کر جمہوریت و سوشلزم کا دفاع کیا۔

بنگلہ دیش میں طلبہ کا کوٹہ سسٹم کے خلاف احتجاجی تحریک کا آغاز اور اس طلباءؿ کی تحریکوں کی حمایت میں طلبا کے ہمراہ مزدور و ٹرانسپورٹ یونینز نے طلبا کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے ہو کر ملک گیر تحریک کا انعقاد کیا۔

جبکہ مقتدر حکمران پارٹی کی طلبا ونگ طلبہ پر تشدد اور طالبات کی ریپ اور اقدام قتل کے واقعات میں ملوث ہوتی نظر آرہی ہیں، جبکہ طلبہ بنگالی عوام کے ہمراہ ملک گیر ہڑتال و بغاوتوں کے ذریعے حسینہ واجد کے اقتدار کو گرانے میں کامیاب ہوئے۔

ساتھیوں نے مزید کہا کہ آج عالمی سرمایہ دارانہ نظام کا بحران نا صرف معاشی و سیاسی سطحوں پر اپنا اظہار کررہی ہے بلکہ ہمہ وقت ایک نظریاتی و اخلاقی زوال بھی اپنے ہمراہ لیے ہوئے ہے۔

جہاں عالمی سرمایہ دارانہ جدیدیت ان بحرانات کا نظریاتی حل دینے سے قاصر ہے وہیں دوسری جانب رجعت پرست اور رائٹ ونگ قوتیں متبادل کے طور پر ابھر رہے ہیں، جو تیسری دنیا میں مزہبی انتہا پسند جنگی قوتوں کے ابھار کی صورت اپنا اظہار کررہی ہیں اور مشرق وسطیٰ میں داعش، حماس، القاعدہ افریقی براعظم میں الشباب، بوکو حرام اور وسطی ایشیاءؿ میں طالبانوں کی افغانستان پر قبضہ جبکہ خطے میں دیگر انتہا پسند مزہبی رحجانات کے ذریعے اپنا اظہار کررہی ہیں، وہیں ترقی یافتہ دنیا اور سرمایہ دارانہ نظام کے مراکز کی بھی صورتحال یکسر مختلف نہیں، حالیہ سال ہونے والے ترکی، انڈیا ، فرانس کے الیکشنز میں فار رائٹ قوتوں کا ابھار اس کیفیت کا مسلسل اظہار کررہی ہے۔

مرکزی ساتھیوں نے کہا کہ مملکت خداداد پاکستان جس کی بنیاد ہی ایک سامراجی پراجیکٹ کے طور پر رکھی گئی ہے، جو 75 سال پہلے ایک نیو کلونیل کرایہ دار فوجی ریاست کے طور پر ظہور میں آتی ہے، اسی سبب اپنی تمام تر عمر یہ ریاست ایک ملٹری اسٹیٹ کے طور پر نشونما پاتی ہے۔

جس کا مقصد ایک طرف عالمی استحصالی پراجیکٹس کی معاون کار کے طور پر سامراجی مفادات کا تحفظ تھا تو دوسری جانب اس ریاست نے گزشتہ 75 سالوں میں محکوم اقوام کیلئے جیل خانہ کے طور پر اپنی وجود کو برقرار رکھا۔

آج جہاں عالمی سامراج سیاسی و معاشی طور پر انتہا درجے کے بحرانات کی زد میں ہے، وہیں پاکستان جو اس عالمی سامراجی نظام کی سیاسی و معاشی بیساکھیوں پر قائم ہے وہاں یہ تضادات و بحرانات زیادہ تندی سے مسلسل اپنا ظہار کر رہی ہیں۔

آج پاکستان جوڈیشری، سیاسی و انتظامی طور پر شدید قسم کے تقسیم و چپقلش کا شکار ہے وہیں اس ریاست کو اپنی تاریخ کے سب سے بڑے سیاسی و شناخت کے بحران کا سامنا بھی ہے۔

اس صورتحال کے پیش نظر پاکستانی مقتدر قوتیں ان بحرانات پر قابو پانے کے لیے زیادہ سے زیادہ طاقت کے استعمال کو درست حل کے طور پر دیکھ رہی ہیں۔

دنیا میں عرب بہار سے لیکر اب تک تیسری دنیا میں عوامی تحاریک ایک غالب منظرنامہ کے طور پر گزشتہ دھائی سے چھائی رہی، جس کی تازہ ترین مثالیں رواں ماہ کانگو اور بنگلہ دیش میں حالیہ ابھرنے والی تحریکیں ہیں۔

عالمی دنیا کی طرح پاکستان بھی تحریکوں کی لپیٹ میں ہے، جو اپنا اظہار محکوم قومیتوں کے تحریکوں کی صورت میں کررہی ہے۔

کشمیر میں بجلی کے بلوں کے خلاف اٹھنے والی تحریک، بلوچ نسل کشی کے خلاف بلوچ یکجہتی کمیٹی کی تحریک، آپریشن عزمِ استحکام کے خلاف بنوں کی عوامی تحریک اور پشتون قومی جرگہ ریاست کی سیاسی و معاشی نظام کی بدحالی

کا برملا اظہار کرتی ہیں۔

مرکزی قائدین نے کہا کہ تاریخی طور پر بلوچ قوم کی اس ریاست کے اندر حیثیت کا درست تجزیہ کیا جائے تو وہ یقیناً فوجی آپریشنز ، بلوچ وطن کی وسائل کے لوٹ مار، بلوچ شناخت و ثقافت پر قدغن اور انسانیت کو شرما دینے والی خوں آلود داستانوں پر مبنی ہے۔

اس جبر کے خلاف بلوچ قوم تاریخی طور پر سراپا مزاحمت ہے۔

بلوچستان میں بلوچ نسل کشی کے خلاف ابھرنے والی حالیہ تحریک بھی اسی تسلسل کا نتیجہ ہے۔

بلوچستان جو گزشتہ دو دھائیوں سے ریاست کی طرف سے مسلط ایک وحشتناک جنگ میں مبتلا ہے جو اب تک لاکھوں انسانی جانوں کو اپنا لقمہ اجل بنا چکی ہے۔

حالیہ بلوچ و پشتوں قومی اجتماعات ریاستی نسل کش پالیسیز کے بر خلاف عوامی غم و غصہ کا اظہار ہیں۔

لیکن مقتدر قوتیں اپنی روش کو برقرار رکھتے ہوئے مسائل کو سنجیدہ طور پر حل کرنے کے بجائے طاقت کے استعمال کو زیادہ درست حکمت عملی سمجھتی ہے۔

اس وقت پاکستانی ریاست کے پاس بلوچ، پشتون، سندھی و دیگر مظلوم اقوام کے مسائل کے حل کیلئے نہ کوئی وسائل ہے، نہ نظریہ ہے اور نہ ہی کوئی درست سنجیدہ حکمت عملی ہے۔

ان سیاسی بحرانات پر قابو پانے کے لیے مقتدر قوتیں زیادہ پرتشدد ہو کر اپنی ماضی کی روش پر قائم ہیں، جو عوامی اجتماعات پر فائرنگ اور سماجی و سیاسی کارکنوں کی جبری گرفتاریوں سے واضح ہے۔

ساتھیوں نے طلبا و نوجوانوں کو درپیش صورتحال پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا بلوچستان میں جہاں تعلیمی ادارے مالی بحرانات کے سبب بند ہونے کے دھانے پر پہنچ چکے ہیں۔

جبکہ تعلیمی اداروں میں ان مالی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے طلبا کے فیسوں میں اضافہ کے سبب طالب علم اپنی تعلیمی سرگرمیوں کو پورا کرنے سے قاصر ہیں۔

وہیں دوسری جانب تعلیمی اداروں کو فوجی چھاؤنی میں تبدیل کرکے بلوچ طالب علموں کو مسلسل جبری گمشدگی قتل و غارتگری کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔

مزید برآں تنظیم کے ایجنڈے پر مرکزی ساتھیوں نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن وہ نظریاتی، فکری اور سیاسی تنظیم ہے جو ابتداءؿ ہی سے نوجوانوں کی شعوری بیداری و سیاسی پختگی سے زہنی آبیاری کرتی آرہی ہے، عالمی و علاقائی سطح پر سیاسی و معاشی انتشارات و بیچینی، خانہ جنگی اور تبدیلیوں کے پیشِ نظر عوامی تحریکوں کی ابھار ناگزیر ہوجاتی ہے، ایسے غیر یقینی کیفیت میں محکوم اقوام کی دفاع اور انکے مفادات کے تحفظ کیلئے سیاسی اداروں اور منظم سیاسی پروگرام کی ضرورت محسوس ہوتی ہے، بی ایس او اپنی نظریاتی اساس جو کہ معروضی ضرورتوں کی درست سائنسی تجزیہ اور انقلابی قیادت کی فقدان کو سمجھتے ہوئے لیڈرشپ تراشنے کو اولین ترجیح سمجھتی ہے اور اس کے لیے سرگرمِ عمل ہے۔

یہ تمام تر صورتحال اس امر کی نشان دہی کررہی ہیں کہ آج کا عہد ایک اہم تاریخی تبدیلیوں کا عہد ہے، اس عہد میں بلوچ بقا کی جنگ بھی تاریخی اقدامات کا تقاضہ کرتی ہے، جس کے لیے ضروری ہے کہ سیاسی قوتیں باہمی اتحاد و اتفاق پر مبنی درست حکمت عملیوں کا تعین کرکے بلوچ عوام اور بلوچ قومی جدوجہد کا دفاع کریں۔

آئندہ کے لائحہ عمل میں تنظیمی کام کو مزید بڑھانے، کیڈر سازی کے عمل کو تیز تر کرنے اور مختلف تنظیمی امور کے سر انجام دہی کے لیے مرکزی کمیٹی تشکیل دی گئی، جبکہ وھید انجم بلوچ کا اپنے عہدے سے استعفیٰ نامہ منظور کیا گیا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *