|

وقتِ اشاعت :   5 hours پہلے

کوئٹہ: وائس فار بلوچ مسنگ پرسن کی جنر ل سیکرٹری سمی دین بلوچ نے سماجی رابطے ویب سایٹ (ایکس) پر اپنے بیان میں کہا ہے سندھ ہائی کورٹ میں مجھ پر ریاست کی غیر قانونی سفری پابندی کو چیلنج کرنے کے لیے میری ساتویں سماعت کے دوران، ایف آئی اے نے بتایا کہ مجھے 28 اگست 2024 کو بلوچستان حکومت کے ایک خط کی بنیاد پر پاسپورٹ کنٹرول لسٹ (پی سی ایل) میں ڈالا گیا تھا۔

انہوں نے جواز کے طور پر 2023 کے آغاز میں خضدار میں میرے خلاف درج ایف آئی آر کا حوالہ دیا۔ خاص طور پر پریشان کن بات یہ ہے کہ اس ایف آئی آر میں لگائے گئے الزامات کو عدالت نے بہت پہلے ہی کالعدم قرار دے دیا تھا۔

پھر بھی، اسی بدنام ایف آئی آر کو ایک سال بعد میرے سفر کو محدود کرنے کی بنیاد کے طور پر استعمال کیا گیاایڈووکیٹ جبران ناصر نے بجا طور پر نشاندہی کی کہ یہ کارروائی اس لیے کی گئی کیونکہ حکام کو ستمبر میں میرے سفر کے منصوبے کا علم ہوا تھا۔

یہ اس بات کا واضح مظاہرہ ہے کہ ریاست کس طرح پرامن انسانی حقوق کے محافظوں کو نشانہ بنانے اور ان کی حوصلہ شکنی کے لیے تاخیری حربے اور ہراساں کرنے کے حربے اپناتی ہے

سندھ ہائی کورٹ نے بلوچستان حکومت کو نوٹس جاری کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ کیس کی سماعت دوسرا بینچ 3 دسمبر کو کرے گا۔ ریاست کے دلائل، الزامات اور جان بوجھ کر روکے جانے والے تضادات کو تقویت ملتی ہے کہ کس طرح انصاف کو منظم طریقے سے روکا جا رہا ہے،

تاہم ریاست ہماری لڑائی کی حوصلہ شکنی کرنے میں کامیاب نہیں ہوگی ایک ٹویٹ میں سمی دین بلوچ نے کہا ہے کہ جون 12، 2024 کو آواران سے تعلق رکھنے والے دلجان بلوچ کوفورسز نے حراست میں لے کر جبری طور پر لاپتہ کردیا۔ تاحال ان کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں ہے کہ وہ کہاں اور کس حال میں ہیں۔

دلجان کی بازیابی کے لیے ان کے اہلِ خانہ نے متعدد بار احتجاج کیا ہے اور اب ایک بار پھر آواران ڈی سی آفس کے سامنے دھرنا دیے بیٹھے ہیں۔

انتظامیہ اور سیکیورٹی اہلکار ان کو احتجاج ختم کرنے کے لیے دھمکا رہے ہیں اور ہراساں بھی کر رہے ہیں، جبکہ دھرنے کے لیے لگائے گئے ٹینٹ کو بھی انتظامیہ اکھاڑ کر لے گئی ہے۔ لواحقین کل سے کھلے آسمان تلے دھرنا دے رہے ہیں۔

اگر مین اسٹریم میڈیا بلوچستان کے وزیروں سے جبری گمشدگیوں کے بارے میں سوالات پوچھنے کے بجائے ان متاثرہ خاندانوں سے سوالات کرے تو انہیں حقیقت کا اندازہ ہوگا۔

لیکن آواران جیسے پسماندہ علاقے کے لوگ مین اسٹریم میڈیا کے لیے شاید کبھی توجہ کا مرکز نہ بن سکیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *