|

وقتِ اشاعت :   November 20 – 2024

آواران:  دلجان بلوچ کی بازیابی کیلئے لواحقین کی طرف سے احتجاجی دھرنا ڈپٹی کمشنر آفس آواران کے سامنے تیسرے روز جاری بھی جاری رہا، دلجان بلوچ کو رواں سال 12 جون کو انکے گھر سے جبری لاپتہ کر دیا تھا۔ ڈی سی آفس کے سامنے احتجاجی دھرنے کو آج تین روز مکمل ہو گئے ہیں

جبکہ دو اور مقامات آواران ٹو کراچی مین روڈ ، اور آواران ٹو کراچی روڈ کو ند گو پوسٹ کے مقام پہ بھی احتجاجاً بلاک کیا ہوا ہے، دلجان کے لواحقین نے آواران کے عوام اور ٹرانسپورٹرز سے تعاون کرنے کی اپیل کی ہے اور کہا ہے کہ وہ اس تکلیف میں انکا ساتھ دیں ۔انتظامیہ دھرنے کے شرکاء کو مسلسل حراسان کر رہے، احتجاجی دھرنے کیلئے دکانداروں کو دھمکی دی گئی ہیں کہ انہیں ٹینٹ اور دیگر سامان مہیا نہ کیاجائے، ضلعی انتظامیہ لیویز اور پولیس کی طرف سے انہیں سیکیورٹی فراہم نہیں کی جا رہی ہے۔

احتجاجی دھرنے میں اس وقت لواحقین کے ہمراہ ڈیڑھ سو کے قریب خواتین شامل ہیں، بلوچ وومن فورم کے رہنما اور کارکنان بھی دھرنے میں شریک ہیں۔ دلجان بلوچ کی بازیابی کیلئے اسکی فیملی مسلسل احتجاج کرتے آ رہے ہیں، دلجان بلوچ کی بازیابی کیلئے فیملی نے تین اکتوبر سے چھ اکتوبر تک احتجاجی دھرنا دیا تھا، اس وقت انتظامیہ نے اس یقین دہانی پر دھرنا ختم کرایا تھا

کہ دس دن کے اندر دلجان کو منظر عام پر لایا جائے گا لکن ابھی ایک مینے سے اوپر ہو گیا کہ اسے بازیاب نہیں کیا جا رہا ہے اور اپنے تحریری وعدے سے منخرف ہو رہے، کل رات ضلعی انتظامیہ سے مزاکرات کا ایک سیشن بھی ہوا تھا جس میں فیملیز پہ دباؤ ڈال رہے ہیں کہ وہ احتجاج ختم کریں دلجان کو چھوڑا جائے گا،

لیکن لواحقین کا کہنا ہے کہ جب تک دلجان کو منظر عام پر نہیں لایا جائے گا انکا روڈ بلاک احتجاج جاری رہے گا ۔بلوچ وومن فورم شال کے ڈپٹی آرگنائزر سلطانہ بلوچ نے دھرنے کے مقام پر اپنے پیغام میں کہا کہ دلجان کے لواحقین اور دھرنے کے شرکاء کو ریاستی فورسز کی طرف سے مسلسل حراساں کیا جا رہے لیویز اور پولیس کے اہلکار سیکیورٹی دینے کے بجائے شرکا ئکا فلمنگ کرکے چلے جاتے ہیں،

ان کا کہنا تھا کہ اگر احتجاجی دھرنے کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کی گئی یا تشدد کا استعمال کیا گیا تو لواحقین کے تحفظ اور امن امان کیذمہ دار ریاست ہو گی۔