کوئٹہ: ایواجی لائنس بلوچستان کی چیئرپرسن ثناء درانی نے کہا ہے کہ حکومت فوری طور پر کم عمری کی شادی کی روک تھام کے حوالے سے زیرالتوا بل کو بلوچستان اسمبلی سے منظور کرائے ،
صوبائی خاتون محتسب برائے انسداد ہراسیت کی تقرری مکمل میرٹ ،قانون کے مطابق غیرسیاسی اوراقربا پروری سے ہٹ کر ے ۔یہ بات انہوں نے اتوار کو فاطمہ مینگل ، فضا کنول ، وطن یار خلجی ، گل حسن درانی ،نصیر ثنا،علی رضا اور عورت فاونڈیشن کے علاؤ الدین خلجی کے ہمراہ کوئٹہ پریس کلب میں مشترکہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہی۔
انہوں نے کہا کہ ایواجی الائنس صوبے کی 40اور مقامی سماجی تنظیموں اور 15سماجی خدمات سرانجام دینے والے انفرادی ممبران کا مشترکہ الائنس ہے
جو بلوچستان میں صنعتی بنیادوں پر ہر طرح کے تشدد کے خاتمے اور مظلوم طبقات خصوصاً خواتین ،بچوں ، خصوصی افراد اور خواجہ سراؤں کے بنیادی انسانی حقوق کیلئے مشترکہ جدوجہد کررہا ہے۔انہوں نے کہا کہ صوبائی حکومت خواتین کے وارثتی حقوق کے مکمل تحفظ کیلئے جلداز جلد قانون سازی کرے اور بلوچستان ہائیکورٹ کے تاریخی فیصلے کے مطابق خواتین کے وراثتی حقوق اوراس طرح کے مقدمات میں خواتین پر دباو کے خاتمے اورانکے جان و مال کے مکمل تحفظ کو یقینی بنائے
بلوچستان سمیت پورے پاکستان میں جاری سیاسی کشیدی ریاست ،ریاستی اداروں کے خلاف جاری مزاحمت کے نام پر خواتین کو بطور ہتھیار کے استعمال کے خلاف سخت سے سخت قانون سازی کی جائے اوراس طرح دہشت گردی کے خلاف جنگ میں چادر اورچار دیواری کی پامالی ،معصوم خواتین کے ماورائے عدالت گرفتاریوں کی روک تھام میں حکومت آئینی قوانین پرعملدرآمد یقینی بنائے ۔
انہوں نے کہا کہ ہم تمام سیاسی جماعتوں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ خؤاتین نوجوانوں خصوصی افراد اور خواجہ سراوں کی مخصوص پارٹی ونگز کے علاوہ انہیں سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹیوں میں برابری کی بنیاد پر نمائندگی دی جائے ۔
انہوں نے کہا کہ صوبائی سطح پر ٹی وی ، سوشل میڈیا اور سیاسی جلسوں میں خواتین کے خلاف غیر اخلاقی زبان کی روک تھام کے لئے نئی اورسخت قا نون سازی کی جائے اوراس قانون میں دہشت گردی کی دفعات شامل کی جائیں بلوچستان جیسے قبائلی معاشرے میں جہاں جرگہ سسٹم دوبارہ فعال ہورہا ہے اسے حکومتی سرپرستی میں شرعی قانونی اور آئینی طریقہ کار کے تحٹ صنفی طور پر حساس اوراسے پابند کیا جائے کہ جرگے میں خواتین کو33فیصد نمائندگی دی جائے
تاکہ صنفی تنازعات کے حل میں خواتین بھی اپنا کلیدی کردارادا کرسکیں۔انہوں نے کہا کہ سرکاری اداروں میں تمام سطحوں پرخواتین کو برابری کی بنیاد پر نمائندگی دی جائے اورانکے لئے کوٹہ کم از کم 35فیصد کیا جائے صنفی تشدد کا شکار خواتین کیلئے حکومتی سطح پر بہتر اور مکمل ریفرل کا طریقہ کار مزید سہل و مضبوط و واضح کیا جائے ،خواتین کے حقوق کے حوالے سے فوری اور تیز تیز سماعت کیلئے عدالتوں میں موثراقدامات کو یقینی بنایاجائے۔انہوں نے کہا کہ صوبہ بھر میں ضلعی سطح پر وومن پروٹیکشن سینٹرز کا قیام عمل میں لایا جائے
اور تشدد سے متاثرہ خواتین کی فوری قانونی و مقدمات کو جلد از جلدنمٹانے کیلئے وکلاء پینل کی پائیدار تقرریوں کو عمل میں لایا جائے اور مخنس (خواجہ سرا)کے سماجی اورمعاشی تحفظ کیلئے صوبائی سطح پرپالیسی ترتیب اورتشکیل دی جائے،ایچ آر پالیسی برائے میڈیا ہاوس کو صنفی حساسیت ٰکے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ترتیب دیاجائے گلوبل دنیا میں انٹرنیٹ کی بڑھتی ہوئی مانگ کو دیکھتے ہوئے اسے طلباء ،طالبات اور ای مارکیٹنگ سے منسلک خواتین کیلئے محفوظ بنایا جائے
تاکہ سائبر کرائمز کو روکنے میں بھرپورمدد مل سکے۔ انہوں نے کہا کہ سائبر کرائمز قوانین میں صنفی احساسات کے مطابق بہتر اورآسان ترامیم کرکے اسے خواتین اور بچوں کے لئے مزید بہتر بنایا جائے
صوبے میں خواتین کے تمام تر حقوق کے لئے خدمات سرانجام دینے والی مقامی سماجی اورفلاحی اداروں کو تحفظ اورانکے لئے بی سی آر اے کے قوانین میں مناسب ترامیم کرکے خصوصی رعایت دی جائے اوران تنظیموں کی بقاء یقینی بنانے کیلئے خصوصی حکومتی گرانٹس فراہم کی جائیں۔
Leave a Reply