ملک میں سیاسی و معاشی استحکام اندرون خانہ استحکام کے بغیر ممکن نہیں۔
اس وقت ملک میں سب سے بڑا مسئلہ معاشی چیلنج کا ہے، معیشت کی بہتری کیلئے حکومت جہاں مالیاتی اداروں سے قرض لے رہی ہے اس کے ساتھ دوست اور دیگر ممالک کے ساتھ سرمایہ کاری کو بڑھانے کیلئے اقدامات اٹھارہی ہے تاکہ ملک کو معاشی مسائل سے نکالا جاسکے اور ترقی و خوشحالی کے دور کی طرف ملک گامزن ہوا جاسکے مگر بدامنی سمیت احتجاجی دھرنوں ،ہڑتالوںکے باعث معیشت پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
پی ٹی آئی کی جانب سے مخصوص دنوں میں ملک کے دارالخلافہ اسلام آباد کواحتجاجی دھرنوں کا مرکز بنایا جاتا ہے اب بیلا روس کا وفد پاکستان کے دورے پر ہے ، اسی دوران پی ٹی آئی کی جانب سے اسلام آباد میں دھرنا دینے کا فیصلہ کیا گیا جس کی وجہ سے اسلام آباد کو سیل کیا گیا ہے اور اسلام آباد کی طرف آنے والے قافلوں کو روکنے کیلئے سیکیورٹی انتظامات کئے گئے ہیں ۔
اس قسم کے احتجاج سے ایک تو کاروبار زندگی مفلوج ہوکر رہ جاتی ہے، دوسری جانب سیکیورٹی انتظامات پر بھی خطیر رقم خرچ ہوتی ہے لیکن بانی پی ٹی آئی کو اس کی کوئی پرواہ نہیں، وہ اپنی رہائی کیلئے دباؤ بڑھاتے ہیں اورخاص مواقع پر احتجاج کی کال دیتے ہیں ۔پچھلے ادوار میں جب چینی صدر پاکستان کا دورہ کرنے آرہے تھے تو بانی پی ٹی آئی خود اسلام آباد میں دھرنے کی قیادت کررہے تھے جس سے چینی صدر نے دورہ منسوخ کیا ۔
اسی طرح عالمی سطح پر ملکی امیج کو متاثر کیا جارہا ہے معیشت کو نقصان پہنچایا جارہا ہے سیاسی عدم استحکام پھیلایا جارہا ہے اور مطالبہ بانی پی ٹی آئی کی رہائی ہے۔
اپنے دور حکومت میں بانی پی ٹی آئی احتجاج دھرنوں کو ملک کے خلاف بڑی سازش اور بلیک میلنگ قرار دیتے تھے مگر اپنے ذاتی مفادات کیلئے وہ کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں مقصد صرف رہائی اور اقتدار کا حصول ہے اس کے علاوہ کچھ نہیں ۔
بانی پی ٹی آئی کے دور میں کوئی ایک بڑی مثال معاشی ترقی کی نہیں ملتی المیہ تو یہ ہے خیبر پختون خواہ میں ان کی حکومت ہونے کے باوجود آج بھی پسماندگی اور بدامنی انتہاء پر ہے مگر خیبر پختون خواہ کے وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور صوبے کے وسائل کو احتجاجی دھرنوں میں صرف کررہے ہیں ،گورننس پر کوئی توجہ نہیں، خود ہی احتجاج کو لیڈ کرتے ہوئے اسلام آباد پر لشکر کشی کررہے ہیں ۔
اس احتجاج میں ان کے ساتھ بانی پی ٹی آئی کی اہلیہ بشریٰ بی بی بھی قیادت کررہی ہیں جس کے متعلق پی ٹی آئی کہتی ہے کہ بشریٰ بی بی گھریلو خاتون ہیں ،ان کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں یعنی جھوٹ بولنے پر بھی شرمندگی محسوس نہیں کرتے۔
اگر بشریٰ بی بی سیاست میں براہ راست شامل ہیں تو اس کا برملا اظہار کریں مگر بانی پی ٹی آئی جھوٹے بیانیہ بنانے میں ماہر ہے ۔
بہرحال جو کچھ کیا جارہا ہے اس کا نقصان ملکی معیشت کو پہنچ رہا ہے اور ساتھ ہی دوست ممالک کے وفود کی آمد پر احتجاج کا مقصد یہی ہوسکتا ہے کہ ملک میں سرمایہ کاری نہ آئے۔
وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ اپوزیشن کے احتجاج کی کال سے روزانہ 190 ارب روپے کا نقصان ہوتا ہے۔
لاک ڈاؤن اور احتجاج کی وجہ سے ٹیکس وصولیوں میں کمی ہوتی ہے، احتجاج کے باعث کاروبار میں رکاوٹ سے برآمدات متاثر ہوتی ہیں۔
احتجاج کے باعث امن برقراررکھنے کیلئے سیکیورٹی پر اضافی اخراجات آتے ہیں، آئی ٹی اور ٹیلی کام کے شعبے میں نقصانات اس کے علاوہ ہیں۔
ان کا کہنا تھاکہ آئی ٹی اور ٹیلی کام کی بندش سے سماجی طور پر منفی اثر پڑتا ہے۔
وزارت خزانہ نے اس سلسلے میں رپورٹ تیار کی ہے اور محتاط اندازے کے مطابق جی ڈی پی کو روزانہ 144 ارب کا نقصان ہوتا ہے، ہڑتال کے باعث برآمدات میں کمی سے روزانہ 26 ارب کا نقصان ہوتا ہے۔
احتجاج کے دوران براہ راست غیرملکی سرمایہ کاری متاثر ہونے سے روزانہ 3 ارب روپے نقصان ہوتا ہے، احتجاج کے باعث صوبوں کو ہونے والے نقصانات الگ ہیں، صوبوں کو زرعی شعبے میں روزانہ نقصان 26 ارب روپے کا ہوتا ہے، صوبوں کو صنعتی شعبے میں ہونے والا نقصان 20ارب روپے سے زیادہ ہے۔
اب ان اعداد و شمار سے اندازہ لگائیں کہ ملکی معیشت کو ایک سوچے سمجھے سازش کے تحت نقصان پہنچایا جارہا ہے ۔
طرف بدامنی تو دوسری جانب دھرنوں کی سیاست یہ سب ملک کو دیوالیہ کرنے کی سازش اور دنیا میں ملکی ساکھ کو متاثر کرنے کی واردات ہے مگر پی ٹی آئی کو ان حساس معاملات سے کوئی غرض نہیں، خاص کر بانی پی ٹی آئی کو ملکی سلامتی کی کوئی پرواہ نہیں۔
ان کیلئے اہم وہ خود ہیں اور یہ ان کا زعم ہے کہ وہ ایک عالمی لیڈر ہیں، ان کے بغیر نظام نہیں چل سکتا، وہ ملک کیلئے ناگزیر ہیں ۔
بہرحال ملک میں ا س وقت جو تماشہ لگایا گیا ہے اس سرکس کا ایک ہی مقصد ہے کہ بانی پی ٹی آئی باہر آجائیں اور تخت ان کے حوالے کیا جائے اس کے سواء کچھ نہیں۔
پی ٹی آئی کی اسلام آباد پر لشکر کشی، ملکی معیشت کو اربوں روپے کا نقصان، مقصد بانی پی ٹی آئی کی رہائی اور تخت کا حصول!
وقتِ اشاعت : 5 hours پہلے
Leave a Reply