پی ٹی آئی کے احتجاج کے باعث اسلام آباد کے اطراف میںصورتحال کشیدہ ہوچکی ہے، پورا نظام درہم برہم ہوکر رہ گیا ہے گوکہ بیشتر افرادی قوت کے پی سے لائی گئی ہے اور خیبرپختونخواہ کے تمام سرکاری وسائل استعمال کیے جار ہے ہیں۔
مظاہرین کی قیادت بانی پی ٹی آئی کی اہلیہ اور وزیراعلیٰ کے پی علی امین گنڈا پور کررہے ہیں۔
بیلا روس کا اعلیٰ وفد بھی اسلام آباد میں موجود ہے ،مختلف تجارتی معاہدے طے کئے گئے ہیں تاکہ ملک میں سرمایہ کاری کا رجحان بڑھے اور پاکستان کو بھی دیگر عالمی منڈی تک رسائی حاصل ہو ۔
اسلام آباد میں حالات کو کنٹرول کرنے کیلئے سخت اقدامات اٹھائے گئے ہیں۔
اسلام آباد کے ڈی چوک پر رینجرز نے تحریک انصاف کے مظاہرین کو پیچھے دھکیل کر دوبارہ کنٹرول سنبھال لیا۔
تحریک انصاف کے کارکنان اور رہنمائوں پر مشتمل قافلہ ڈی چوک کی جانب رواں دواں ہے جب کہ پی ٹی آئی کے متعدد کارکنان بھی ڈی چوک پہنچ چکے ہیں۔
ڈی چوک اور اطراف میں سکیورٹی سخت ہے اور ڈی چوک کی طرف بڑھنے والوں کو گرفتار کرنے کا فیصلہ کرلیا گیا ہے جبکہ ریلی کی قیادت کرنے والوں کو بھی گرفتار کیا جائے گا۔
اس سے قبل تحریک انصاف کا قافلہ جی 11 اور جی 9 سے گزرا جہاں پولیس اور پی ٹی آئی کارکنان میں تصادم ہوا ، دونوں جانب سے ایک دوسرے پر آنسو گیس کی شیلنگ کی گئی اور پی ٹی آئی کارکنان کی جانب سے پولیس پر پتھرائو بھی کیا گیا۔ پی ٹی آئی احتجاج کے دوران انتشار سے نمٹنے کیلئے وفاقی دارالحکومت میں فوج طلب کرلی گئی ہے۔
وزارت داخلہ نے اسلام آباد میں فوج کی طلبی کا نوٹیفکیشن جاری کردیا جس کے مطابق آرٹیکل 245 کے تحت پاک فوج کو بلایا گیا ہے اور واضح کیا گیا ہے کہ قانون توڑنے والوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے گا۔ نوٹیفکیشن کے مطابق آرمی کو کسی بھی علاقے میں امن وامان کی صورتحال برقرار رکھنے کیلئے کرفیو لگانے کے اختیارات بھی تفویض کیے گئے ہیں۔
شاہراہ دستورپرپارلیمنٹ ہاؤس سمیت تمام اہم عمارتوں پرفوج تعینات ہے۔
ذرائع کے مطابق سکیورٹی اداروں کو انتشار پھیلانے والوں کو موقع پر گولی مارنے کے واضح احکامات دیے گئے ہیں۔
تحریک انصاف کے احتجاجی مظاہرے کے دوران سری نگر ہائی وے پر شرپسندوں نے رینجرز اہلکاروں پر گاڑی چڑھا دی جس سے 4 رینجرز اہلکار شہید جب کہ 5 رینجرز اور 2 پولیس کے جوان شدید زخمی ہوگئے۔
سکیورٹی ذرائع کے مطابق شرپسندوں کی جانب سے قانون نافذ کرنے والے اداروں پر حملوں میں اب تک رینجرز کے 4 جوان شہید اور پولیس کے 2 جوان شہید ہو چکے ہیں۔
اب تک 100 سے زائد پولیس اہلکار زخمی ہو چکے ہیں جن میں متعدد شدید زخمی ہیں۔
دوسری جانب احتجاج کیلئے متبادل جگہ کی حامی بھرنے کے باوجود بشریٰ بی بی نے انکار کردیاہے اوروہ ہر صورت ڈی چوک پہنچنا چاہتی ہیں ۔
پی ٹی آئی کی مرکزی قیادت دھرنے کیلئے حتمی مقام کا تعین کرنے میں ناکام نظر آتی ہے، مرکزی قیادت میں کوئی بھی ذمہ داری لینے کو تیار نہیں۔
بہرحال حالات کی جو تصویر بن رہی ہے یہ ملک کے مفاد میں نہیں۔
اس احتجاج کا مقصد صرف عدم استحکام پیدا کرنا اور اپنے مذموم مقاصد حاصل کرنا ہے۔
جو معاملات عدالت میں ہیں اب انہیں پی ٹی آئی سڑکوں پر انتشار کی صورت میں حل کرنا چاہتی ہے جو کسی طور ممکن نہیں۔
اب جو نقصان ہوگا اس کی ذمہ دار پی ٹی آئی قیادت ہوگی جنہوں نے جتھوں کے ذریعے اسلام آباد پر لشکر کشی کا منصوبہ بنایا ہے اس احتجاج کے زیادہ نقصانات پی ٹی آئی کو ہی اٹھانے ہونگے ،عدالتی احکامات کی خلاف ورزی بھی کی گئی ہے جس کے سخت نتائج برآمد ہونگے۔
Leave a Reply