|

وقتِ اشاعت :   December 2 – 2024

کوئٹہ:  پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے صوبے کے متعدد اضلاع کے ڈپٹی کمشنرز کی اجلاس میں عدم شرکت، غیر تسلی بخش جوابات پر انکے بھیجے گئے نمائندوں کو سننے سے انکار کرتے ہوئے 9دسمبر کو ایک بار پھر طلب کرلیا، پی اے سی اراکین کی چیف سیکرٹری کو مراسلہ لکھنے کی بھی سفارش کی۔

بلوچستان پبلک اکاؤنٹس کمیٹی (پی اے سی)کا اجلاس پیر کو چیئر مین اصغر علی ترین کی زیر صدارت منعقد ہوا۔ اجلاس میں میں زابد علی ریکی، وزیر خزانہ میر شعیب نوشیروانی، اور زمرک خان اچکزئی سمیت دیگر اراکین نے شرکت کی۔

کمیٹی نے پبلک اکائونٹس کمیٹی کے اجلاس میں ڈپٹی کمشنرز کی عدم شرکت اور سرکار کی جانب سے عوامی زمینوں کو واگزار اور معاوضہ لوگوں کو مہیا نہ کرنے پر تشویش کا اظہار کیا۔ اجلاس میں دو مرتبہ مواقع فراہم کرنے کے باوجود، ڈپٹی کمشنرز کی عدم شرکت پر چیئرمین نے چیف سیکرٹری کو مراسلہ لکھنے کا حکم دیتے ہوئے متعلقہ ڈی کمشنرز کیخلاف تادیبی کارروائی کا مطالبہ کیا گیا۔

کمیٹی نے اراکین نے کہا کہ عوام کو انکی زمینوں کے پیسے نہ ملنے پر عوام تکلیف میں ہیں۔

اراکین نے زور دیا کہ جن زمینوں کے کیسز عدالتوں میں ہیں ان کے علاوہ تمام لوگوں کے معاوضہ کے رقم چھ ماہ کے اندر اندر مالکان میں تقسیم کیا جائے۔

ڈپٹی کمشنر لسبیلہ نے اجلاس کے شرکاء کو آگاہ کیا کہ ڈی سی لسبیلہ کو 2021 میں 75 کروڈ روپے ملے تھے، جو کہ ابھی تک ان کے اکائونٹ میں موجود ہیں۔ ڈی سی لسبیلہ نے کمیٹی کو آگاہ کیا کہ یہ رقم انکے پوسٹنگ سے پہلے کے پڑے ہوئے ہیں۔

چیئر مین نے اس بات پر حیرت کا اظہار کیا کرتے ہوئے کہا کہ ٹرانسفر پوسٹنگ کام کا حصہ ہے لیکن ایسے معاملات کو جلد از جلد حل کیا جانا چاہیے۔ اجلاس میں وزیر خزانہ میر شعیب نوشیروانی نے کہا کہ اگر عدالت نے کسی زمین پر اسٹے آرڈر نہیں دیا ہے تو یہ رقم عوام میں تقسیم کی جائے۔

وزیر خزانہ نے مزید کہا کہ اگر لوگوں کی جائیدادوں کی قیمت کم رکھی گئی تو ان کی رقم میں اضافہ کر کے جلد از جلد ادائیگی کی جائے۔ کمیٹی کے رکن انجینئر زمرک خان اچکزئی نے کہا کہ عوام کے ساتھ ناجائز اور ناانصافی ہرگز قبول نہیں کی جائے گی عوام کے ساتھ ناانصافی کا تدارک کیا جائے۔

کمیٹی نے ڈپٹی کمشنرز کے اکاوٹنس پر بھی تبادلہ خیال کیا اور فنانس ڈیپارٹمنٹ کو ہدایت کی کہ وہ ان تمام اکاونٹس کی تفصیلات حاصل کرے اور غیر فعال اکاؤنٹس کو جلد ا جلد بند کر کے رقم قومی خزانہ میں جمع کروائی جائے۔ کمیٹی کے رکن میر زابد علی ریکی نے کہا کہ ڈپٹی کمشنرز کے اکاونٹس میں کئی سالوں سے غیر استعمال شدہ رقم سرکاری خزانے میں جمع کروائی جائے۔

اجلاس کے دوران مختلف اضلاع کے ڈپٹی کمشنران کے اکائونٹ میں معاوضہ، سڑک کٹائی، اور دیگر مقاصد کے لیے2008سے مختص کم و بیش 19ارب روپے کی رقم کو بھی مختص کردہ مقاصد کے استعمال میں لانے کی ہدایت کی گئی۔

اس موقع پر انجینئر زمرک خان اچکزئی نے ہدایت دی کہ عوام کو انکی جائیداد واگزار کرنے کے بدلے ان کو رقم کی ادائیگی جلد از جلد کی جائے اور انھوں نے ان پیسوں کی عدم ادائیگی کی صورت میں پیسوں کو سرکاری خزانے میں جمع کرنے کی اہمیت پر زور دیا۔

کمیٹی نے ایڈیشنل ڈپٹی کمشنرز اور اسسٹنٹ کمشنرز کی غیر تسلی بخش تیاری اور ڈپٹی کمشنر کی عدم شرکت پر ناراضگی کا اظہار کیا اور ڈپٹی کمشنرز کی غیر موجودگی پر مختلف ڈسٹرکٹس سے آئے ہوئے ایڈیشنل ڈپٹی کمشنرز اور اسسٹنٹ کمشنرز کی رائے تسلیم نہیں کی اور انھیں سننے سے انکار کیا۔

اس موقع پر چیئر مین پی اے سی اصغر علی ترین نے اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کہ اس فورم پر اگر ممبران پی اے سی وزیر خزانہ اور سینئر ممبر بورڈ آف ریونیو آسکتے ہیں تو ڈی سیز کیونکر آنے سے اجتناب کرتے ہیں۔

کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ 9 دسمبر کو دو بجے ایک اور اجلاس منعقد کیا جائے گا، جس میں تمام ڈپٹی کمشنرز کو مکمل تیاری کے ساتھ شرکت کرنی ہوگی اور ڈپٹی کمشنرز کے علاوہ کسی دیگر آفیسر کو اجازت نہیں ہو گی کہ وہ متعلقہ ڈی سی کی نمائندگی کریں۔

اجلاس میں سینئر ممبر بورڈ آف ریونیو قمبر دشتی، سیکرٹری بلوچستان اسمبلی طاہر شاہ کاکڑ، سیکرٹری بورڈ آف ریونیو نصراللہ ترین، آڈیٹر جنرل بلوچستان شجاع علی،ایڈیشنل سیکرٹری پی اے سی سراج لہڑی، ایڈیشنل سیکرٹری قانون سعید اقبال، چیف آکاونٹس آفیسر سید ادریس آغا، ڈپٹی کمشنر لسبیلہ حمیرا بلوچ، ڈپٹی کمشنر آواران عائشہ زہری، اے ڈی سی قلعہ عبداللہ نثار احمد لانگو، و دیگر اے ڈی سی اور اسسٹنٹ کمشنرز نے شرکت کی۔