اسلام آباد: مقامی عدالت نے پولیس اہلکار کو تھپڑ مارنے کے مقدمے میں سابق چیئرمین سینیٹ نیئر حسین بخاری اور ان کے بیٹے جرار بخاری کی عبوری ضمانت منظور کرلی۔
نیئر بخاری کی ضمانت قبل از گرفتاری حاصل کرنے کے لیے ان کے بھائی، دیگر وکلاء رہنماؤں اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے جیالوں کے ہمراہ ڈسٹرکٹ سیشن جج کامران بشارت مفتی کی عدالت میں پیش ہوئے اور عدالت سے ملزمان کو پیش کیے بغیر عبوری ضمانت دینے پر بضد رہے۔
تاہم فاضل جج نے ملزمان کو پیش کیے بغیر درخواست ضمانت کی سماعت سے انکار کردیا اور مقدمہ ایڈیشنل سیشن جج راجہ آصف محمود کو بھجوا دیا۔
ایڈیشنل سیشن جج نے پولیس کو نیئر بخاری اور ان کے بیٹے کو حراست میں نہ لینے اور ملزمان کو پیش ہونے کا حکم دیا، جس کے بعد نیئر بخاری اور ان کے بیٹے وکلاء اور پیپلز پارٹی کے جیالوں کے ہمراہ عدالت میں پیش ہوئے۔
عدالت نے دونوں ملزمان کی 20، 20 ہزار روپے کے مچلکوں کے عوض 16 مئی تک عبوری ضمانت منظور کرلی۔
’مقدمہ پاناما لیکس سے توجہ ہٹانے کیلئے بنایا گیا‘
عدالت کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے نیئر بخاری کا کہنا تھا کہ انہوں نے خود کو عدالت کے سامنے پیش کردیا، انتظامیہ انہیں انصاف سے روک رہی تھی، اور تمام کچہری کو سیل کردیا گیا تاکہ میں انصاف حاصل نہ کرسکوں۔
ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے 40 سال وکالت کی جبکہ ان پر بے بنیاد مقدمہ بنایا گیا۔
انہوں نے کہا کہ اس اہلکار کی نااہلی دیکھو کہ وہ مجھے شناخت نہیں کرسکا، جبکہ اس شخص کا کام صرف معلومات اکٹھی کرنا تھا۔
نیئر بخاری نے کہا کہ ان کے خلاف مقدمہ پاناما لیکس سے توجہ ہٹانے کے لیے بنایا گیا، لیکن ’میں حسین کی اولاد سے ہوں جو یزیدیوں سے نہیں ڈرتے۔‘
واضح رہے کہ نیئر بخاری اور ان کے بیٹے کے خلاف تھانہ مارگلہ میں دو روز قبل ایف ایٹ کچہری میں تلاشی لینے پر پولیس اہلکار کو تھپڑ مارنے اور دھمکی دینے کا مقدمہ درج کیا گیا تھا۔
نیئر بخاری نے اہلکار کو تھپڑ مارنے والے کو اپنا نجی گارڈ بتایا، لیکن بعد ازاں اس کی شناخت ان کے بیٹے جرار بخاری کے نام سے ہوئی۔ نیئربخاری نے مقدمے کو اپنے خلاف سازش اور بدنیتی پر مبنی قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ انہوں نے کسی کو تشدد کا نشانہ نہیں بنایا۔
ان کا کہنا تھا کہ سول کپڑوں میں ملبوس کسی شخص کو ان کی تلاشی لینے کا حق نہیں، جبکہ ان کے گارڈ نے سول کپڑوں میں ملبوس شخص کو تلاشی لینے کی کوشش پر دھکا دیا۔
واقعے کی سی سی ٹی وی فوٹیج میں بھی صاف دیکھا گیا کہ سادہ کپڑوں میں ملبوس ایک پولیس اہلکار داخلی راستے پر کچہری میں آنے والوں کی تلاشی لے رہا ہے۔
اسی دوران نیئر حسین بخاری کچہری داخل ہوتے ہیں اور تلاشی لینے پر برہم ہو کر اہلکار کو دھکا دیتے ہیں، تھوڑی دیر بعد ان کا بیٹا اہلکار کو تھپڑ رسید کردیتا ہے۔
اپنے ساتھی سے نازیبا سلوک کے خلاف دیگر پولیس اہلکار بھی وہاں جمع ہوجاتے ہیں، جبکہ وکلا بھی معاملہ رفع دفع کرانے کی کوشش کرتے ہیں۔
واقعے کا مقدمہ درج ہونے کے بعد انسپیکٹر جنرل (آئی جی) اسلام آباد طارق مسعود یاسین نے نیئر بخاری اور ان کے بیٹے کی گرفتاری کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ سپاہی پر ہاتھ اٹھانے والوں کو اب نہیں چھوڑا جائے گا۔
بعد ازاں اسلام آباد کی مقامی عدالت نے بھی نیئر بخاری اور ان کے بیٹے کے وارنٹ گرفتاری جاری کرتے ہوئے انہیں عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا۔