|

وقتِ اشاعت :   23 hours پہلے

تربت: بی این پی عوامی کے مرکزی صدر، راجی راہشون، رکن صوبائی اسمبلی میر اسداللہ بلوچ نے کہاہے کہ بلوچستان سے نیشنل ازم کی اسپرٹ ختم کرنے کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوگا، نیشنل ازم کے بجائے عوام کا اعتماد پارلیمانی سیاست پر اٹھتا جارہاہے، بلوچستان کے موجودہ حالات اسٹیبلشمنٹ کی 76سالہ ناکام اورمنفی پالیسیوں کا نتیجہ ہیں، ڈاکٹر مہرنگ بلوچ کی عوامی مقبولیت ظلم، جبر، ناانصافی اور استحصالی پالیسیوں کا ردعمل ہیں، ظلم وجبر کے خلاف یہ عوامی لاوا مستقبل میں مزید خطرناک صورت اختیارکرسکتی ہے،

ان خیالات کااظہار انہوں نے پیر کی شام کراچی میں اپنی رہائش گاہ پر تربت پریس کلب کے صدر حافظ صلاح الدین سلفی کی قیادت میں صحافیوں کے وفد سے خصوصی نشست کے دوران کیا، اس موقع پر بی این پی عوامی کے مرکزی جونیئرنائب صدر کامریڈ ظریف زدگ اور میئر میونسپل کارپوریشن چتکان پنجگور شکیل احمد قمبرانی بھی موجودتھے، میر اسداللہ بلوچ نے کہاکہ بلوچ قوم پرست پارٹیاں جب کمزور پڑجاتی ہیں تو وہ اتحاد ویکجہتی کی باتیں کرکے کہتے ہیں کہ بلوچ کمزور ہے آؤ ساتھ چلتے ہیں،انہوں نے کہاکہ بلوچ اوربلوچستان کیلئے وہ کسی کے ساتھ بھی اتحاد کیلئے تیار ہیں تاہم کسی کو لیڈر بنانے کیلئے میں اپنی طویل جدوجہد کی قربانی نہیں دے سکتا،

بلوچ اوربلوچستان کے قومی مفادات ہمارے لئے مقدم ہیں بلوچ، بلوچ ثقافت، تشخص اور سرزمین کے تحفظ کیلئے کسی لالچ، عہدے یا غرض کے بغیر ساتھ چلنے کو تیار ہوں لیکن ون پوائنٹ ایجنڈا بلوچ اوراس کی تاریخ کو زندہ رکھنا ہو، انہوں نے کہاکہ بلوچستان میں ایک بڑی سازش کے تحت بلوچ قومی جدوجہد اور قوم پرستی کی سیاست کو ڈھانے کی درپردہ پلاننگ کی جارہی ہے جس کے تحت ڈیتھ اسکواڈ اور ڈرگ مافیا کی سرپرستی کی جارہی ہے، گوادر کی سیٹ جماعت اسلامی کو دی گئی اورآئندہ دور میں بلوچستان کی حکومت جماعت اسلامی کو دینے کی منصوبہ بندی کی جارہی ہے اس تمام پلاننگ کامقصد بلوچستان سے قوم پرستی کی سیاست کے روح کو ختم کرنا ہے تاہم قوم پرستی کی سیاست بلوچ کی سرشت میں شامل ہے نیشنل ازم کی اسپرٹ ختم کرنے کا منصوبہ کبھی کامیاب نہیں ہوسکتی،

انہوں نے کہاکہ مسلم لیگ اوربلوچستان کی سیاست کرنے والی پارٹیوں کے درمیان کوئی فرق باقی نہیں رہا، بلوچستان کی سیاسی جماعتیں اقتدار اورکرسی کیلئے مصلحت پسندی کا شکار ہوکر اپنی وقعت کھوچکی ہیں، پارلیمانی سیاست خراب نہیں ہے مگر پارلیمان جاکر دلال اورایجنٹ بننے کے بجائے اپنی قوم کا نمائندہ اور آواز بننے کی ضرورت ہے عوام سے ووٹ لینے والے عوام کے مفادات کے تحفظ اور عوام کے خلاف سازشوں کا دفاع کریں، بی این پی عوامی کاموقف کلیئر ہے، منافقت اورجھوٹ کی سیاست کے قائل نہیں، 65کے ایوان میں سے 64 ارکان کے فنڈز جاری کردئیے گئے ہیں مگر صرف میرے فنڈز روکے گئے ہیں کہ آپ ہمارے مطابق بات نہیں کرتے، میں ہرمشکل صورتحال کا سامنا کرنے کیلئے تیارہوں مگر اپنے ضمیر اور اپنے قوم کا سودا نہیں کرسکتا

، وہ کام نہیں کرسکتا کہ کل میرا کوئی کارکن کسی محفل یا دیوان میں لوگوں کا سامنا نہ کرسکے، میر اسداللہ بلوچ نے کہاکہ بلوچ کا لیڈر میں، ڈاکٹر مالک یا اخترمینگل نہیں بلکہ بلوچ کا لیڈر وہ ہے جس کے ساتھ قوم ہے، آج جو سیاست ڈاکٹر مہرنگ بلوچ کررہی ہیں اس فیز سے ہم گزرے ہیں اْس دور میں ہمارے لئے بھی عوامی سپورٹ اسی طرح تھی مگر پارلیمنٹ جاکر یہ عوامی اعتماد کمزور پڑتی گئی

کیونکہ پارلیمنٹ جانے سے قبل پارلیمنٹ کوبطورمورچہ استعمال کرنے، پارلیمنٹ کے ذریعے قومی تحریک کو دنیا کے سامنے لانے اور پارلیمنٹ میں بلوچ قوم کے خلاف سازشوں کا راستہ روکنے کے مقاصد متعین کئے گئے تھے مگر پارلیمنٹ جاکر ہم خود استعمال ہوئے، انہوں نے کہاکہ وہ 4بار اسمبلی گئے ہیں مگر اس پورے دورانیہ میں ایک تقریر بھی اسلام آباد کی خوشنودی کیلئے نہ کیا، انہوں نے کہاکہ اخترمینگل کو اسمبلی نہیں چھوڑنا چاہیے تھا کیونکہ وہ اسمبلی میں بولتا تھا اب اس کی جگہ پر جو جائے گا وہ کیا کرے گا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *