کراچی: چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کا کہنا ہے کہ آج ملک میں ایک دوسرے پر الزامات لگانے کا کلچر پنپ رہا ہے لیکن کوئی بھی اپنی ذمہ داریاں اور فرائض نبھانے کو تیار نہیں۔
کراچی میں ایک سیمینارسے خطاب کرتے ہوئے جسٹس انورظہیر جمالی کا کہنا تھا کہ انسانی بنیادی حقوق کی واضح تفصیل آئین پاکستان میں موجود ہے اس لئے ملک میں انسانی حقوق کے خلاف کوئی بھی قانون نہیں بن سکتا۔ ان کا کہنا تھا کہ مقننہ انتظامیہ اورعدلیہ کو اپنا اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ عدلیہ کی آزادی کے لیے سب سے اہم چیزیہ ہے کہ ہر شخص اپنی ذمہ داریوں کو نبھائے جب کہ قانون پرعملدرآمد کی ذمہ داری صرف عدلیہ کی نہیں بلکہ پورے معاشرے کی ہے۔
چیف جسٹس آف پاکستان نے کہا کہ یہ بات عام مشاہدے میں آئی ہے کہ جس طرح ہمارے ملک کے اشرافیہ اور سیاستدان اپنی چھوٹی چھوٹی بیماریوں کے علاج کے لئے بیرون ملک کا سفر کرتے ہیں اسی طرح ہم اپنے مخصوص مسائل کے حل کے لئے دوسرے ممالک کے قانونی اورعدالتی نظام سے استفادہ حاصل کرتے ہیں، یہ کوئی بری بات نہیں لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے مخصوص حالات کو پیش نظررکھتے ہوئے ان مسائل کا حل مقامی سطح پر بھی تلاش کریں۔ آج ملک میں ایک دوسرے پر الزامات لگانے کا کلچرپنپ رہا ہے، ہرشخص حقوق کی بات کرتا ہے لیکن اپنی ذمہ داریاں اورفرائض بنھانے کو تیار نہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ 27 سال گزرگئے لیکن آج بھی اردو زبان کا نفاذ نہیں ہو سکا، ہماری قومی زبان اردو ہے اور اس کا نفاذ بھی ضروری ہے، ہم ملک میں قومی زبان رائج کرنا چاہتے ہیں لیکن ابھی بھی ہم اپنی زبان سے ناآشنا ہیں، ہمیں اپنے عدالتی نظام کو جلد ازجلد اردو میں منتقل کرنا ہوگا کیونکہ دنیا بھر میں قانونی تعلیم قومی زبان میں ہی دی جاتی ہے۔
جسٹس انور ظہیر جمالی کا کہنا تھا کہ ترقی کے لیے سب سے پہلے ملک کی آبادی پرتوجہ دینا ہوگی جو19 کروڑ سے تجاوزکرچکی ہے، مثبت ذہن اورسوچ پربحث سے مثبت نتائج سامنے آتے ہیں لیکن ملک کا بڑا المیہ یہ ہے کہ ہم منفی سوچ کی وجہ سے بنیادی اور اہم معاملات پر آج تک کوئی متفقہ لائحہ عمل تیار نہیں کرسکے۔