خضدار: بلوچستان اور ملک کے دیگر میڈیکل کالجوں کے داخلوں کے لیے ٹیسٹ دینے والی طلباء و طالبات حافظہ عائشہ ایوب، افشاء محمد یعقوب، تانیہ غفار اور عبدالباسط کی قیادت میں ریلی نکالی اور مبینہ نا انصافی کے خلاف احتجاجی ریلی نکال کر پریس کلب کے سامنے مظاہرہ کیا۔
مظاہرین ہاتھوں میں پلے کارڈ اٹھا رکھے تھے جن پر بولان یونیورسٹی آف میڈیکل اینڈ ہیلتھ سائنسز، کوئٹہ کے خلاف نعرے درج تھے۔
احتجاجی مظاہرے کے بعد طلباء و طالبات نے پریس کانفرنس کی۔
آل پارٹیز شہری ایکشن کمیٹی کے چیئرمین بشیر احمد ایڈووکیٹ، میر سفر خان مینگل، ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن کے جنرل سیکرٹری غلام نبی ایڈووکیٹ، پرائیوٹ اسکولز ایسوسی ایشن کے رہنماء عید محمد ایڈووکیٹ و رئیس محمد ایوب نوتانی، بی ایس او پجار کے جنرل سیکرٹری حسیب بلوچ، بی ایس او کے سنٹرل کمیٹی کے رکن عدنان بلوچ، لسبیلہ یونیورسٹی کے سابق جنرل سیکرٹری معاویہ بلوچ سمیت مختلف سیاسی جماعتوں و طلباء تنظیموں کے عہدیداروں نے ان سے یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے پریس کانفرنس اور ریلی میں شریک ہوئے۔
پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے طلباء و طالبات کا کہنا تھا کہ ایم بی بی ایس اور بی ڈی ایس سال 2024-2025 سیشن کے لیے منعقدہ ٹیسٹ میں قریباً نو ہزار طلباء و طالبات نے داخلہ ٹیسٹ میں حصہ لیا، جن میں سے تقریباً تین ہزار سے زائد طلباء و طالبات نے اپنا سینٹر شہید ذوالفقار علی بھٹو میڈیکل یونیورسٹی اسلام آباد رکھا، جبکہ باقی امیدواروں نے بولان میڈیکل یونیورسٹی اینڈ ہیلتھ سائنسز بلوچستان کوئٹہ میں ٹیسٹ دیا۔
بی ایم سی کے نسبت اسلام آباد میں ٹیسٹ انتہائی آسان لیا گیا مگر اسلام آباد میں ٹیسٹ دینے والے امیدواروں نے احتجاج کیا تو ان کی احتجاج کو مدنظر رکھتے ہوئے انہیں چھ گریس مارکس دیے گئے، بعد میں مکمل ٹیسٹ بھی دوبارہ لیا گیا۔
بات یہاں ختم نہیں ہوئی، دوبارہ ٹیسٹ لینے کے بعد بھی انہیں اس بات پر 13 گریس مارکس دیے گئے، جبکہ دوسری جانب ہمارے یہاں بولان میڈیکل اینڈ ہیلتھ سائنسز نے طلباء و طالبات کے ساتھ شروع سے ہی نا انصافی برتنا شروع کر دی۔
گرمی کے موسم میں امیدواروں کو چیکنگ کے نام پر دو گھنٹے دھوپ میں کھڑا کرکے ان کا وقت ضائع کیا گیا، بعد ازاں جو سوالات دیے گئے ان میں سے 26 سے 28 سوالات آوٹ آف کورس تھے جس کی وجہ سے تمام امیدوار ذہنی دباؤ کا شکار ہو گئے۔
اگر ہم شہید ذوالفقار بھٹو یونیورسٹی اسلام آباد کے ٹیسٹ کی مشکلات کا بولان میڈیکل اینڈ ہیلتھ سائنسز کے ساتھ موازنہ کریں تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ بلوچستان میں ہونے والا ٹیسٹ زیادہ مشکل تھا اور گریس مارکس بھی مل گئے۔
بلوچستان بھر میں صرف تین امیدواروں نے 170 نمبر حاصل کیے، جبکہ اسلام آباد میں آسان سوالنامہ ہونے کی وجہ سے پہلے پوزیشن لینے والے امیدوار نے 198 نمبر حاصل کیے، جبکہ 38 سے زائد امیدواروں نے 190 تک نمبر حاصل کیے۔
دوسری جانب ہم جو بلوچستان میں ٹیسٹ دیے، ہمارے سارے اعتراضات پر کوئی توجہ نہیں دی جا رہی ہے۔
اس کے علاوہ خضدار سمیت بلوچستان کے دیگر اضلاع کے امیدواروں میں سے جن امیدواروں نے اسلام آباد میں ٹیسٹ دیا، انہیں 13 گریس مارکس ملے، جبکہ بولان میڈیکل کے ذریعے کوئٹہ میں ٹیسٹ دینے والے طلباء و طالبات گریس مارکس سے محروم رہے، تو ان کے درمیان کیسا انصاف کیا جائے گا؟
جن اعتراضات پر اسلام آباد میں ٹیسٹ دینے والے امیدواروں کو گریس مارکس ملے، انہیں اعتراضات ہمارے بھی ہیں۔
ہماری آواز کیوں نہیں سنی جا رہی ہے؟
اس تمام صورتحال میں ہم طالبہ کرتے ہیں کہ ہماری آواز سنی جائے، ہمارے اعتراضات کا ازالہ کیا جائے۔
سب سے پہلے بولان میڈیکل اینڈ ہیلتھ سائنسز کی جانب سے 28 آوٹ آف سلیبس سوالات کو ختم کر کے تمام امیدواروں کو 28 گریس مارکس دیے جائیں۔
جس طرح ذوالفقار بھٹو یونیورسٹی اسلام آباد نے تمام امیدواروں کو اجازت دی تھی کہ وہ سوالنامہ اپنے ساتھ لے جا سکتے ہیں، اسی طرح بولان میڈیکل انتظامیہ اپنی ویب سائٹ پر مکمل پرچہ شائع کرے۔
ہمارے میرٹ لسٹ کو صاف شفاف انصاف کے ساتھ مرتب کیا جائے۔
مندرجہ بالا مطالبات ہمارے اصولی اور جائز ہیں، ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ ان پر غور کیا جائے، ورنہ ہم سخت لائحہ مرتب کریں گے جس میں کوئٹہ، خضدار، ڈوب، نصرآباد سمیت بلوچستان کے مختلف علاقوں میں قومی شاہراوں پر دھرنا دے کر قومی شاہراہیں بلاک کریں گے۔
اپنے والدین، ہمدردوں اور انصاف پسند لوگوں کے ساتھ مل کر مزید سخت احتجاج کے لیے لائحہ عمل ترتیب دینے سے قبل ازیں ہم کوئی سخت فیصلہ کریں۔
حکومت، متعلقہ ادارے خصوصاً چیف جسٹس بلوچستان ہمارے ساتھ ہونے والے نا انصافی کا از خود نوٹس لے کر ہمیں انصاف فراہم کریں۔
Leave a Reply