|

وقتِ اشاعت :   May 8 – 2016

سیکرٹری خزانہ حکومت بلوچستان مشتاق رئیسانی کو ان کے دفتر سے گرفتار کر لیا گیا، ان پر کرپشن کے سنگین الزامات تھے اور وہ گزشتہ کئی سالوں سے زیر نگرانی تھے ۔بنیادی الزام تو مقامی حکومتوں کے 1.5ارب روپے کے فنڈ میں خرد برد اور سالانہ ترقیاتی پروگرام کے اسکیموں میں کرپشن کا ہے ۔گرفتاری کے فوری بعد انہوں نے نیب حکام کو بتایا کہ اس کے گھر کے در و دیوار میں کروڑوں روپے کیش اور نقدی پڑی ہوئی ہے ۔ ان کی اپنی اطلاع کے بعد نیب کے افسران نے ان کے گھر پر چھاپہ مارا ور گھر سے 73کروڑ روپے مالیت کے ملکی اور غیر ملکی کرنسی جس میں ڈالر ، برطانوی پونڈ اور یو ای اے درہم شامل تھے بر آمد کی گئی ۔ یہ رقم ایک بڑے لاکر ، پندرہ بیگ اور صندوقوں میں رکھی گئیں تھیں اس کے علاوہ چار کروڑ مالیت کے زیورات، کئی دستاویزات جن سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے ملک کے کئی شہروں میں جائیدادیں خرید رکھی ہیں بھی برآمد ہوئیں۔ نیب کے حکام نے ان کے دفتر پر چھاپہ مارا تو وہاں پر موجود سرکاری اہلکاروں نے مزاحمت کرنے کی کوشش کی اور سیکرٹریٹ کے دروازے بند کر دئیے تاکہ گرفتار ملزم کو صوبائی سیکرٹریٹ سے باہر نہ لیا جایا جا سکے تاہم کچھ دیر کے بعد لوگوں نے احتجاج ختم کردیا اور مشتاق رئیسانی کو نیب کے ہیڈ کوارٹر منتقل کردیا گیا۔ دوسرے دن صبح ہی ان کو ایک مقامی عدالت میں پیش کیا گیا جس نے 14روز کی ریمانڈ نیب کو دے دی تاکہ وہ ملزم سے پوچھ گچھ کر سکے ۔ مشتاق رئیسانی ، گریڈ 21کے ایک سینئر افسر کی گرفتاری وہ بھی ان کے سرکاری دفتر سے ایک بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ ملک کے اندر بعض عناصر منتخب اور نمائندہ حکومت کی سر عام تذلیل چاہتے ہیں اس کا مقصد سول سیکرٹریٹ کے تقدس کو پامال کرنا بھی ہے ۔ اس کی دوسری مثال سرکاری اور متعلقہ حکام کی اجازت کے بغیر سرکاری دستاویزات پر قبضہ کرنے کا مطلب یہ ظاہر کرنا ہے کہ اس ملک میں آئین اور قانون کی حیثیت نہیں ہے ۔ طاقتور عناصر جو سماج اور حکومت میں موجود ہیں وہ ہر کام کر سکتے ہیں ۔ سینئر ترین افسر کو ان کے ماتحتوں کے سامنے گرفتار کرنا اور تذلیل کرنا ایک اشتعال انگیز عمل ہے جس کی حمایت نہیں کی جا سکتی ۔ نیب گھر پر چھاپہ مار کر ان کو وہاں سے گرفتار کر سکتی تھی ۔ سول سیکرٹریٹ اور سینکڑوں ماتحت ملازمین کے سامنے اس کو کیوں گرفتار کیا؟ کیا نیب با قاعدہ سزا سے پہلے اس کی تذلیل کا حق رکھتی ہے ؟ہم اس کے جرائم کی حمایت نہیں کرتے ہم کرپشن کے خلاف ہیں گزشتہ کئی دہائیوں سے ہم کرپشن کے خلاف مہم چلا رہے ہیں اور یہ برملا کہہ رہے ہیں کہ یہ عوام کی دولت ہے جس کو سماج کے طاقتور عناصر لوٹ رہے ہیں ۔ ہم آج بھی یہ برملا کہہ رہے ہیں کہ کرپشن کی وجہ سے بلوچستان زیادہ بدنام ہے ۔ اس کی وجہ صرف کرپٹ عناصر ہیں جو سیاست میں ہیں اور دیگر کرپٹ عناصر انتظامیہ یا انتظامی مشینری کا حصہ ہیں جو اپنے اختیارات کا غلط استعمال کررہے ہیں ۔ کرپشن ہر جگہ ہورہی ہے بلکہ وفاقی دارالحکومت میں کہیں زیادہ ہورہی ہے وہاں یہ بات مشہور ہے کہ ایک بہت بڑے افسر نے اپنی تعیناتی کیلئے ایک ارب سولہ کررڑ روپے رشوت دی اس کی ادائیگی غالباً دبئی میں کی گئی۔ تاہم مشتاق رئیسانی کی گرفتاری اور اسکے پاس73کروڑ روپے کی نقدی کی برآمدگی کے بعد یہ دعویٰ کرنا زیب نہیں دیتا کہ سابقہ حکومت میں کرپشن نہیں ہوئی۔ یہ تو ایک افسر کا کارنامہ ہے اگر سابقہ حکمرانوں اور دوسروں سے باز پرس کی جائے تو ان کے پاس اربوں نکلیں گے افسروں کے پاس کروڑوں اور کرپٹ سیاسی رہنماؤں کے پاس اربوں کی دولت ملے گی ۔ چونکہ ہم اچھا سپاہی اور برا سپاہی کے فلسفہ پر یقین رکھتے ہیں اس لئے ہم کارروائی صرف برے سپاہی کے خلاف کرتے ہیں اچھا سپاہی اپنا ہی ہوتا ہے جس سے ہم محبت کرتے ہیں ۔