تربت: سکریٹری جنرل بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی اظہر بلوچ نے کہا ہے کہ بلوچستان کتاب کاروان کے تحت منعقدہ کتاب میلوں پر پولیس اور انتظامیہ کی بلاجواز رکاوٹیں اور طالبعلموں کو ہراساں کرنا بلوچ قوم کو علم و شعور سے دور رکھنے کی منہ بولتا ثبوت ہیں۔
بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کی جانب سے بلوچستان کتاب کاروان کے سال نو کے آغاز میں بلوچستان بھر میں کتاب میلوں کا اہتمام کیا گیا ہے جس کے تحت سیاست، سائنس، سماج، تاریخ ، ٹیکنالوجی سمیت مختلف شعبوں کے قیمتی کتابوں کو یکجا کرکے بلوچستان کے دور دراز علاقوں میں کتاب اسٹالوں کا بندوبست کیا گیا ہے۔
لیکن بدقسمتی کے ساتھ جدید دنیا کے بنیادی سہولیات سے محروم بلوچستان اور اس کے باسیوں کو علم سے روشناس کرانے کی یہ کاوش ریاستی اداروں کو پسند نہیں آرہی اور اپنے تعلیم دشمن پالیسیوں کے تحت کتاب میلوں کو سبوتاڑ کرنے کیلیے پولیس اور دیگر ریاستی اداروں کے ذریعے منتظمین کو ہراساں کیا جارہا ہے۔ ریاستی پولیس کی جانب سے نصیرآباد میں لگنے والے کتاب اسٹال کو زبردستی ختم کرنے کیلیے پولیس کی بھاری نفری لائی گئی اور کتاب اسٹال کو طاقت کی زور پر ختم کیا گیا ہے۔
اس کے بعد سبی میں لگنے والے کتاب اسٹال کو بھی پولیس کے ذریعے ختم کیا گیا اور بساک کے مرکزی سنگت سمیت طالبعلموں کو غیرقانونی طور پر گرفتار کرکے پروفائلنگ اور ہراسمنٹ کا نشانہ بنایا۔
اس کے علاوہ خاران میں لگنے والے کتاب اسٹال پر بھی ضلعی انتظامیہ کی جانب سے فون کالز اور مختلف ذرائع سے ہراساں کرنے کی کوشش کی۔ آج بارکھان میں کتاب اسٹال پر پولیس نے دھاوا بولا اور زبردستی کتاب اسٹال کو بند کروایا۔ کتاب جو کہ معاشرے کو اندھیروں سے نکال کر روشنیوں کی جانب سفر کرانے والا بہترین ذریعہ ہے۔ کتاب ہی معاشرے میں سیاسی و سماجی تبدیلیوں کا بہترین ہتھیار مانا جاتا ہے لیکن ریاستی اداروں کو کتاب سے کیا خطرہ ہوسکتا ہے؟۔
یہ دراصل کتاب پر حملہ نہیں بلکہ بلوچ قوم کے شعور و دانش پر حملہ ہے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ ریاست دانستانہ بلوچ قوم کیلیے علم کے دروازے بند رکھنا چاہتا ہے۔
ایک طرف بلوچستان بھر میں پرائمری اسکولوں سے لے یونیورسٹیز تک غیر فعال ہیں ، لائیبریری ڈھونڈنے سے نہیں ملتے، لاکھوں کی تعداد میں بلوچ بچے اسکول سے باہر ہیں وہیں ان اندھیروں میں ہم اپنی مدد آپ کے تحت علم کے دیے جلانے کیلیے کوششیں کررہے ہیں ان کو طاقت کی زور پر روکنا ہماری اجتماعی دانش پر حملہ ہے جس کے خلاف مزاحمت ناگزیر ہے۔
Leave a Reply