بلوچستان میں تعلیم کی شرح بہت کم ہے، تعلیمی اداروں کی صورتحال ابتر ہے، لاکھوں کی تعداد میں بچوں کا سکولوں سے باہر ہونے کی ایک بڑی وجہ اساتذہ کی غیر حاضری، کتابوں سمیت دیگر بنیادی سہولیات کی عدم فراہمی ہے ۔
بلوچستان کے بیشتر اسکولوں کی عمارتیں خستہ حالت میں ہیں جبکہ بعض اضلاع میں بغیر چھت اورکرسی کے فرش پراور کھلے آسمان تلے بچے پڑھائی کرتے ہیں حالانکہ بلوچستان میں تعلیم کیلئے خطیر رقم اس بنیاد پرمختص کی جاتی ہے کہ بچوں کو معیاری تعلیم سمیت تمام تر سہولیات حاصل ہو ںمگر اب تک تعلیم کی صورتحال میں کوئی بہتری نہیں آئی ہے جبکہ کرپشن کے کیسز ضرور سامنے آرہے ہیں جو کہ ایک بہت بڑا المیہ ہے۔
انسانی وسائل پر رقم مختص کرکے نوجوان نسل کوتعلیم یافتہ اور ہنر مند بناکر انہیں باصلاحیت بنایا جاتا ہے تاکہ ان کا مستقبل بہترین ہو اور وہ مختلف شعبوں سے وابستہ ہوکر نہ صرف بلوچستان کی خدمت کریں بلکہ ایک بہترین روزگار کا حصول بھی ان کیلئے ممکن ہو۔
انتہائی افسوس کا مقام ہے کہ بلوچستان میں نصابی کتابوں کی چھپائی میں اربوں روپے کرپشن کے انکشافات سامنے آرہے ہیں۔
بلوچستان کے محکمہ تعلیم کے زیر انتظام بلوچستان ٹیکسٹ بک بورڈ کی 5 سالہ آڈٹ رپورٹ نے بورڈ میں ڈیڑھ ارب روپے سے زائد کے گھپلوں کی نشاندہی کی ہے۔
آڈیٹر جنرل پاکستان کی جانب سے بلوچستان ٹیکسٹ بک بورڈ کے حوالے سے آڈٹ رپورٹ تیار کرکے صوبائی اسمبلی میں پیش کردی گئی ہے۔
آڈٹ رپورٹ کے مطابق 2017 سے 2022 کے دوران ضرورت کے برعکس کتابوں کی مشکوک پرنٹنگ سے قومی خزانے کو 11کروڑ 64 لاکھ کا نقصان پہنچا یا گیا،کاغذ اور دیگر پرنٹنگ میٹیریل کی خریداری میں تقریباً 53کروڑ 80 لاکھ جب کہ وینڈرز کو غیر ضروری رعایت دینے سے 23کروڑ 85 لاکھ روپے کی بے قاعدگی سامنے آئی۔
رپورٹ میں بتایاگیا ہے کہ اسکولوں اور کالجز کے لیے چھپنے والے کتب رکھنے کیلئے عمارت کے حصول میں قومی خزانے کو 11کروڑ کا ٹیکا لگایا گیا، اسی طرح لائسنس فیس کی مد میں غیر ضروری اخراجات سے 21کروڑ جبکہ گورنمنٹ ٹیکس کی کم کٹوتی سے قومی خزانے کو 27کروڑ 23لاکھ کا نقصان اٹھانا پڑا ۔
بلوچستان اسمبلی نے مزید چھان بین کیلئے آڈٹ رپورٹ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے سپرد کردی ہے۔
اب اس آڈٹ رپورٹ کی پبلک کمیٹی کے پاس منتقلی کے بعد کیا ملوث افراد کے خلاف سخت کارروائی عمل میں آئے گی؟ اس پورے عمل میں یقینا نظام کے اندر موجود شخصیات اور ان کے منظور نظر افراد بھی ملوث ہونگے ان کے بغیر کرپشن کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، سسٹم کے اندر رہنے والے ہی نظام کو شفاف بناسکتے ہیں یا پھر کرپٹ کرتے ہیں ۔
بلوچستان حکومت کو ان عناصر پر ہاتھ ڈالنا ہوگا تاکہ نظام کے اندر موجود کرپٹ لوگوں کا احتساب ہوسکے، بلاتفریق کارروائی کو یقینی بنانے کے لیے ان کو مکمل نظام سے الگ رکھا جائے تاکہ کرپشن کے رجحان کا خاتمہ یقینی ہو ۔بلوچستان میں پہلے سے ہی تعلیم کی صورتحال ابتر ہے جس کے پیچھے اسی طرح کے عناصر کارفرماہیں جو تعلیمی اداروں پر خرچ ہونے والی رقم کو ہڑپ کرکے بچوں اور نوجوانوں کے تعلیمی مستقبل کے ساتھ کھلواڑ کررہے ہیں۔
امید ہے کہ ایسے عناصر کے خلاف سخت ایکشن لیا جائے گا تاکہ تعلیم سمیت دیگر شعبوں سے کرپٹ عناصر کا خاتمہ ممکن ہوجاسکے اور اداروں میں بہتری آسکے۔
Leave a Reply