|

وقتِ اشاعت :   5 hours پہلے

ملک کی موجودہ معاشی صورتحال اور نظام کے تلخ حقائق کو حکمرانوں نے سامنے رکھ کر فیصلے کرنے ہوں گے ۔
ہر وقت یہی بتایا جاتا ہے کہ معاشی حالات میں تیزی سے تبدیلی آرہی ہے، معاشی اعشاریے اوپر جارہے ہیں، اسٹاک ایکسچینج میں مثبت تبدیلی رونما ہورہی ہے، عالمی مالیاتی اداروں سمیت دوست ممالک کی جانب سے رقم موصول ہورہی ہے، سرمایہ کاروں کا اعتماد موجودہ نظام پر بڑھتا جارہا ہے، مقامی سرمایہ کار بھی پیسہ لگا رہے ہیں، بیرونی سرمایہ کاری بھی آرہی ہے، روزگار کے بڑے پیمانے پر مواقع پیدا کئے جارہے ہیں، نوجوانوں کو بلاسود قرض اور چھوٹے کاروبار کے منصوبے دے رہے ہیں، مہنگائی کی شرح بہت کم ہوگئی ہے۔
بہرحال اگر اس تمام عمل کے ثمرات لوگوں تک پہنچ رہے ہیں تو نوجوانوں کی بڑی تعداد لاکھوں روپے دیکر غیر قانونی طریقے سے پر خطر راستوں کا چناؤ کرکے ملک چھوڑ کر کیوں جارہے ہیں؟ یہ سوال انتہائی اہم ہے جس کا جواب معاشی بدحالی کے سوا کچھ نہیں۔
ملک کی 60 فیصد آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے جو معیاری تعلیم کے باوجود ڈگریاں لیکر ملازمتوں سے محروم ہیں، سرکاری اور پرائیویٹ سیکٹر میں انہیں ایک اچھی تنخواہ کے ساتھ ملازمت میسر نہیں جبکہ بینکوں سے قرض لیکر کاروبار کرنے کا ارادہ بھی کیا جائے تو سخت شرائط سے مایوس نوجوان امید چھوڑ دیتا ہے۔
یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ 70 سال سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود ہمارا معاشی نظام مستحکم نہیں ہوا اور نہ ہی انسانی وسائل ہنرمندی کے حوالے سے بہترین و اعلیٰ تعلیم کا بندو بست کرسکے جس سے نوجوانوں کو بیرون ممالک قانونی طریقے سے روزگار کیلئے با آسانی ویزہ دستیاب ہو، نہ ہی ایسی تعلیمی منصوبہ بندی ماضی میں کی گئی کہ اسکالر شپ کے ذریعے نوجوان اپنے پسندیدہ ممالک میں جاکر نہ صرف اعلیٰ تعلیم حاصل کرتے بلکہ ساتھ ہی ایک بہترین روزگار انہیں ملتا۔
یہ نظام کی وہ تلخ حقائق اور خامیاں ہیں جن سے صرف نظر کیا گیا جس کا نتیجہ آج سامنے یہ آرہا ہے کہ چند ماہ کے دوران دلخراش واقعات سامنے آئے ہیں کہ بیرون ملک جانے والے پاکستانیوں کی کشتی کو حادثہ پہنچا جس سے درجنوں نوجوان سمندر میں ڈوب کر جاں بحق ہوگئے ۔
اپنے والدین کی جمع پونجی اور زندگی دونوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
والدین کا قیمتی اثاثہ ان کے بچے ہوتے ہیں جن میں انہیں اپنا بہترین مستقبل دکھائی دیتا ہے، اس طرح کے واقعات والدین کو موت سے قریب کرتے ہیں، ایک واقعہ پورے خاندان کو متاثر کر تا ہے۔
گزشتہ دنوں افریقی ملک موریطانیہ سے غیرقانونی طور پر اسپین جانے والوں کی کشتی کو حادثہ پیش آیا تھا جس کے نتیجے میں 44 پاکستانی اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے ۔
86 تارکین وطن کی کشتی 2 جنوری کو موریطانیہ سے روانہ ہوئی تھی، کشتی میں کل 66 پاکستانی سوار تھے تاہم کشتی حادثے میں 36 افرادکو بچالیا گیا۔
کشتی حادثے میں جاں بحق 44 پاکستانیوں میں سے 12 نوجوان گجرات کے رہائشی تھے، اس کے علاوہ سیالکوٹ اور منڈی بہاؤالدین کے افراد بھی کشتی میں موجود تھے۔
حکومتی سطح پر اعلیٰ تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دی گئی ہے، ایف آئی اے نے کارروائیوں کا آغاز کرلیا ہے، چند انسانی اسمگلرز گرفتار بھی ہوئے ہیں مگر اس تمام عمل کے بعد کیا دوبارہ اس طرح کے واقعات رونما نہیں ہونگے؟ اگر ان واقعات کو روکنا ہے تو ملک کے اندر کرپٹ نظام کا خاتمہ کرنا ہوگا، نوجوانوں کیلئے اعلیٰ تعلیم اور بہترین روزگار، کاروبار کا بندو بست کرنا ہوگا جب تک عام لوگوں کی زندگی میں معاشی تبدیلی نہیں آئے گی یہ سلسلہ تھمے گا نہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *