کوئٹہ : بلوچ یکجہتی کمیٹی کے زیر اہتمام دالبندین میں بعنوان ،اقدار، ریلی نکالی گئی۔ ریلی دالبندین بابائے چاغی روڈ سے ہوتی ہوئی دالبندین کلی قاسم خان گراونڈ پہنچی۔ ریلی میں بڑی تعداد میں خواتین، بچوں اور ہزاروں کی تعداد میں لوگ شریک ہوئے۔
ریلی کی قیادت ڈاکٹر صبحہ بلوچ کر رہی تھیں۔ ریلی کے شرکا بلوچ لاپتہ افراد کی بازیابی اور بلوچ نسل کشی کے خلاف نعرے لگا رہے تھے ریلی کے شرکا سے ڈاکٹر صبحہ بلوچ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ 25 جنوری کو دالبندین میں راجی مچی کا مقصد ریاست کو یہ بتانا ہے کہ بلوچ قوم متحد ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ تحریک صرف لاپتہ افراد کی نہیں،
بلکہ بلوچستان کے کسی بھی فرد کے ساتھ ناانصافی یا ظلم ہوگا، تو یہ تحریک اس کی آواز بنے گی۔
یہ تحریک اب ریاستی ظلم و بربریت کے خلاف بھرپور آواز بلند کرے گی انہوں نے خطاب میں مزید کہا کہ بلوچستان میں ایک عام بلوچ کے لیے کوئی سہولت میسر نہیں ہے تاکہ وہ اپنی زندگی بہتر گزار سکے۔
تابکاری کے اثرات سے بچے گھروں میں معذور پیدا ہو رہے ہیں اور لوگ کینسر جیسی موذی بیماری کے درد اور تکلیف کے ساتھ مر رہے ہیں۔
جس نے یہ تابکاری کے اثرات پیدا کیے ہیں، اس نے کیا سہولت فراہم کی ہے؟ کوئی ہسپتال تک علاج کے لیے نہیں دیا۔
اس کا ذمہ دار کون ہے؟ انہوں نے مزید کہا کہ صرف لاپتہ کرنے سے بلوچوں کی نسل کشی نہیں ہو رہی ہے، بلکہ ہر حوالے سے بلوچوں کی نسل کشی کی جا رہی ہے اور ہمیں ہمارے بنیادی حقوق سے محروم رکھا جا رہا ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ تاثر یہ دیا جا رہا ہے کہ بی وائی سی صرف بلوچ لاپتہ افراد کی تحریک ہے، لیکن یہ تحریک بلوچستان کے ہر مظلوم کے ساتھ ظلم ہونے پر اس کی آواز بنے گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایک بلوچ صبح اپنی گاڑی اٹھا کر بارڈر پر جا کر اپنے بچوں کے پیٹ پالنے کے لیے دو وقت کی روٹی تلاش کرتا ہے،
اور واپسی پر یا تو تیر کھا کر، یا اس کے پاں جلا کر، یا اسے تشدد کر کے وہ واپس گھر لوٹتا ہے۔ بحثیت بلوچ وہ مظلوم بن کر چھپ جاتے ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ ہمارے نوجوانوں کو نشے کی لعنت میں مبتلا کر دیا گیا ہے۔ ایک بلوچ کی ماں اپنی تمام تر زندگی اپنے بچے کے لیے وقف کرتی ہے، کشیدہ کاری اور محنت مزدوری کر کے اس کا علاج کراتی ہے، لیکن وہ علاج سے واپس آ کر دوبارہ نشے میں مبتلا ہو جاتا ہے۔
اس کی پوری زندگی برباد ہو جاتی ہے، یا اس کی والدہ مر جاتی ہے یا وہ خود نشے کی حالت میں مر جاتا ہے۔ ہر بلوچ کے گھر میں اس طرح کا ایک درد بھری کہانی موجود ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ بلوچستان میں بلوچوں کو اس لیے شہید کیا گیا ہے کہ انہوں نے بلوچستان کے بلوچوں کے حق کی بات کی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ بی وائی سی کا مقصد یہی ہے کہ ہمیں سمجھنا ہوگا کہ ہمارا حق کیا ہے اور کچھ لوگ آئیں گے اور ہمیں لالچ دیں گے، ورغلائیں گے۔
ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ وہ ہمارے خیرخواہ نہیں ہیں۔ یہ لوگ نہیں جانتے کہ ہمارے نوجوانوں کو روزگار چاہیے، ہمارے بچوں کو اسکول اور صحت کی سہولتیں چاہیے۔ ایسے لوگوں سے ہمیں بچنا ہوگا اور اپنے بچوں کو معذوری سے بچانا ہوگا۔ ہمیں اس مقصد کے حصول کے لیے اکھٹا ہونا ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ 25 جنوری کو پورا بلوچستان اکھٹا ہوگا۔ ہمیں سب کو اپنے حقوق، ناانصافیوں اور ظلم کے خلاف یکجا ہونا ہوگا اور ہمیں یہ پیغام دینا ہوگا کہ بلوچ قوم کی ہر سطح پر نسل کشی کی جا رہی ہے۔
اس کے خلاف ایک آواز بلند کرنا ہوگی۔انہوں نے مزید کہا کہ نسل کشی کے خلاف ہمیں شعور دینا ہوگا اور سمجھنا ہوگا کہ کس کس شکل میں ہماری نسل کشی کی جا رہی ہے۔انہوں نے خطاب میں مزید کہا کہ صرف ریاست نہیں، ہم خود بھی اپنی نسل کشی کر رہے ہیں۔ قبائلی تنازعات، اراضی کے تنازعات، اپنے بچوں کو تعلیم نہ دینا، اپنی خواتین کو گھروں میں بند کر کے ان کے حقوق نہ دینا، اپنے بچوں کو نشے سے محفوظ نہ رکھنایہ بھی نسل کشی ہے۔
ہمیں یہ سمجھنا ہوگا۔انہوں نے مزید کہا کہ بلوچ یکجہتی کمیٹی کا مقصد یہی ہے کہ ہمیں اپنے لوگوں کو بتانا ہوگا کہ ہم کس طرح اپنے آپ کو نسل کشی سے بچا سکتے ہیں انہوں نے مزید کہا کہ بلوچ ایک ایسا قوم ہے جس کے پاس ہمیشہ سے صحیح اور غلط کا فرق رہا ہے۔
اگر ایک بلوچ نے چوری کی ہے تو سو سال تک اس کے خاندان کو اسی چوری کا الزام لگا رہتا ہے، مگر افسوس کہ آج ہم حق بولنے والے کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں، جو بلوچوں کے حق اور حقوق کے لیے کھڑا ہے،اور ہم ایسے لوگوں کے ساتھ فوٹو کھینچ کر فخر محسوس کرتے ہیں جو بلوچوں کے حق اور حقوق کو ہضم کردیتا ہے بحثیت بلوچ، ہمیں ان چیزوں کو سمجھنا ہوگا،
یہ بھی بلوچ کی نسل کشی ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ بلوچ کو سمجھنے اور آگے جانے کے لیے تعلیم حاصل کرنا ہوگی اور اپنے حقوق اور فرادی کو پہچاننا ہوگا۔ مگر ریاست چاہتی ہے کہ بلوچ تعلیم سے دور ہوں، تاکہ انہیں اپنے حقوق کا علم نہ ہو۔ انہوں نے مزید اپنے خطاب میں کہا کہ اپنے بچوں کو سکول اور کالج میں داخل کریں اور خود کو سمجھنے کے لیے اپنا ایک سسٹم بنائیں۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی کا مقصد یہی ہے کہ بلوچ اپنے حقوق اور فرادی کو سمجھے اور ہم اپنی غلطیوں کو درست کریں۔آج میں یہاں پر کھڑی ہوں، میرا مقصد یہی ہے کہ ہم اپنے آپ کو درست کریں، اپنی غلطیوں کو ٹھیک کریں۔ 25 تاریخ کو جلسے کا مقصد یہی ہے کہ ہمیں اپنے حقوق کو سمجھنا ہوگا۔
ریلی میں ہزاروں کی تعداد میں لوگوں نے شرکت کی اور 25 جنوری کو دالبندین میں جلسے کو کامیاب بنانے کا عہد کیا۔ریلی پر امن طور پر اختتام پذیر ہوا۔
Leave a Reply