کوئٹہ : جماعت اسلامی بلوچستان کے امیر و رکن صوبائی اسمبلی مولانا ہدایت اللہ بلوچ نے کہا ہے کہ بلوچستان حکومت نااہل ، اسمبلی اور کابینہ کی کوئی اہمیت نہیں حکومت مقتدر حلقے چلا رہے ہیں کابینہ میں بیٹھے افراد بے بس ہیں۔
لاہور، ملتان، راولپنڈی میں کوئی چیک پوسٹ نہیں لیکن بلوچستان میں قدم قدم پر چیک پوسٹیں قائم ہیں۔
قومی شاہراہوں پر سیکورٹی کے نام پر شہریوں کو تنگ کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔
سیکورٹی پر سالانہ 85 ارب روپے خرچ کئے جاتے ہیں لیکن کارکردگی صفر ہے۔
حکومت لاپتہ افراد کے مسئلہ پر سنجیدہ نہیں ہے۔
یہ بات انہوں نے جمعرات کو کوئٹہ پریس کلب میں پریس کانفرنس کے دوران کہی اس موقع پر ڈاکٹر عطاء الرحمن ،زاہد اختر بلوچ سمیت دیگر بھی موجود تھے۔
انہوں نے کہا کہ ہر ادارہ کو اپنے دائرے میں رہ کر کام کرنا چاہئے سیکورٹی والے جب سیاست میں مداخلت کریں گے تو سیاستدان کسی کام کے نہیں رہیںگے اور حالات بہتر ہونے کی بجائے دن بدن ابتر ہوتے جائیں گے۔
ایف سی کی زیادتیوں کی وجہ سے بلوچستان میں امن تہہ و بالا ہے قومی شاہراہیں سفر کے قابل نہیں دو وقت کی روٹی کیلئے بھی لوگوں کو نہیں چھوڑا جارہا جس کی وجہ سے غربت ، افلاس اور بدامنی عروج پر پہنچ چکی ہے۔
بلوچستان کی آواز کو ہر سطح پر بلند کرینگے سیکورٹی کے مد میں 85 ارب روپے خرچ ہورہے ہیں لیکن سیکورٹی صورتحال بہتر نہیں۔
بلوچستان حکومت کابینہ میں بیٹھے افراد بے بس ہیںان کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں ان کے ہاتھ میں کچھ نہیں وہ طاقتور حلقوں کے حکم پر چل رہے ہیں۔
جس کی بڑی وجہ 85 ارب روپے ہی ہے جب تک یہ پیسے ہیں بدامنی جاری رہے گا بلوچستان میں لوگوں کے مرنے پر حکومتی سطح پر کوئی سنجیدگی نظر نہیں آرہی ہے مصور کاکڑ 15 نومبر سے اب تک لاپتہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ لاہور ،ملتان ، پنڈی میں کوئی چیک پوسٹ نہیں بلکہ بلوچستان میں ہر طرف چیک پوسٹیں موجود ہیں اس کے باوجود امن وامان کی صورتحال دگر گوں اور لوگ عدم تحفظ کا شکار ہے۔
لوگ روزانہ کی بنیاد پر لاپتہ اور قتل ہورہے ہیں حکومت لاپتہ افراد کے مسئلے کو حل کرنے میں سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کررہی ہے بلوچستان میں عوام، حکومت اور اپوزیشن کی سطح پر نا امیدی اور مایوسی نظر آرہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ پہلے کہا جاتا تھا کہ اس جھنڈے کے سایہ تلے ہم ایک ہے اور نیک ہے اب تو یہ تبدیل ہوگیا ہم اس ڈنڈے کے سایہ تلے ایک ہے بلوچستان میں ڈنڈا ہی چل رہا ہے بدترین کرپشن عروج پر ہے۔
انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت کی لاپتہ افراد کے مسئلے پر سنجیدگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ایک ایسے فرد کو لاپتہ افراد کمیشن کا چیئرمین بنایا گیا جس کو اس کا کوئی علم نہیں تھا اور وہ ززندگی اور موت کی کشمکش میںتھا جو دو دن بعد فوت ہوگیا۔
Leave a Reply