|

وقتِ اشاعت :   February 15 – 2025

کوئٹہ : پیکا ایکٹ ترمیمی بل کے خلاف بلوچستان یونین اف جرنلسٹس کا احتجاج اگلے مرحلے میں داخل ۔ پریس کلب کوئٹہ کے باہر تین روزہ شاندار علامتی بھوک ہڑتالی کیمپ اختتام پذیر۔

بی یو جے نے پیکا ایکٹ کے خلاف صحافیوں کی ملک گیر جدوجہد کو پاکستان کو بحرانوں سے بچانے ، آزادی اظہار رائے کو یقینی بنانے اور تحریک آزادی صحافت سے تعبیر کرتے ہوئے اسے مطالبات کی منظوری تک مذید شدت کے ساتھ جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے۔ پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کی کال پر بی یو جے کے علامتی بھوک ہڑتالی کمیپ کے اختتامی روز صحافیوں نے بھرپور احتجاج ریکارڈ کرایا اور پیکا جیسے کالے قانون کے خلاف اپنی آواز بلند کی۔

احتجاجی کیمپ میں دن بھر سیاسی رہنماوں ، مختلف ٹریڈ یونینز اور سول سوسائٹی کے نمائندوں اور دیگر مختلف شعبوں سے تعلق

رکھنے والے افراد کی آمد کا سلسلہ جاری رہا اور شرکا نے پیکا ایکٹ کے خلاف شاندار جدوجہد پر بی یوجے کو خراج تحسین پیش کیا۔صحافیوں سے اظہار یکجہتی کے موقع پر گفتگو کرتے ہوئے عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی رہنمااصغر خان اچکزئی ، پشتونخا میپ کے مرکزی رہنما عبدالرحیم زیارتوال، پشتونخوا نیشنل عوامی پارٹی کے مرکزی رہنما نصراللہ خان زیری ، نیشنل ڈیموکریٹک موومنٹ کے مرکزی رہنما مزمل شاہ گرینڈ ہیلتھ الائنس کے رہنما ڈاکٹربہارشاہ انسانی حقوق کمیشن کے رہنما شمس اللہ اور دیگر رہنماوں کا کہنا تھا کہ پیکا کے خلاف صحافیوں کی جانب سے بلند کی گئی آواز اب ملک کے ہر شہری کی آواز بن چکی ہے اور اس کالے قانون کے خلاف جاری تحریک میں ہر طبقہ فکر کے لوگ بھرپور کردار ادا کر رہے ہیں ۔

متنازع پیکا ترمیمی بل کو ائین اور انسانی حقوق سے متصادم قرار دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آئین پاکستان ہر شہری کو اظہار رائے کی آزادی کا حق دیتا ہے لیکن حکومت من پسند قوانین کے ذرئعے ہر مسئلے کا حل طاقت کے زور پر تلاش کرنے کی کوشش کررہی ہے اور ان غیرائینی اقدامات سے نہ صرف انفرادی بلکہ اجتماعی طور پربھی منفی ردعمل پیدا ہورہاہے۔ ان کا کہنا تھا کہ آزادی صحافت یقینی بنائے بغیر پاکستان درپیش بحرانوں سے کبھی چھٹکارہ حاصل نہیں کرسکتا کیونکہ ملک میں بنیادی مسئلہ لوگوں کے سیاسی ، سماجی ،قانونی اور معاشرتی حقوق کی پاسداری اور شفاف نظام حکمرانی سے ہے۔ مقررین کا کہنا تھا کہ ملکی مین اسٹریم میڈیا پر بد ترین سنسرشپ کے باعث ڈیجیٹل میڈیا پر انحصار بڑھ رہا ہے جسے حکمران قومی مفاد کے بجائے اپنے زاتی عزائم کی تکمیل کے لیے غیرآئینی طریقوں سے کنٹرول کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔

انہوں نے کہا کہ آزادی صحافت کے خلاف اٹھائے گئے اقدامات کی وجہ سے رسمی میڈیا دن بدن مفلوج ہوتا جا رہاہے جس پرصحافیوں کے ساتھ ساتھ پر طبقہ فکر کے لوگ تشویش کا شکار ہیں۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ آزادی صحافت کی راہ میں حائل رکاوٹیں دور کرتے ہوئے حکومت ائین کے ارٹیکل 8 سے لے کر ارٹیکل 28 تک تحریر اور تقریر کی عوام کو دی گئی آزادی کو یقینی بنائے ۔اظہار یکجہتی کے لیے علامتی بھوک ہڑتالی کیمپ انے والے دیگر رہنماوں میں پشتونخوا نیشنل عوامی پارٹی کے عبدالقادر اغا، پشتونخوا میپ کے کبیر افغان ، نصیر کاکڑ ، فیصل افغان ، عوامی نیشنل پارٹی کے ثنااللہ کاکڑ گرینڈ ہیلتھ الائنس کے جمال شاہ کاکڑ ، پاکستان لیبر فیڈریشن ، سینٹرل مائنز لیبر ایسوسی ایشن اورانسانی حقوق کمیشن کے دیگر رہنما شامل تھے۔

بلوچستان یونین اف جرنلسٹس نے احتجاجی کیمپ کے خاتمے کے بعد پریس کلب کوئٹہ کے باہر احتجاجی مظاہرہ بھی کیا اور پیکا ایکٹ کے خلاف شدید نعرے لگائے ۔ صحافیوں نے اپنے مطالبات کی منظوری تک جدوجہد جاری رکھنے کا اعلان کیا ۔ اس موقع پر صدر بی یوجے خلیل احمد نے اپنے مختصر خطاب میں شاندار جدوجہد پر بلوچستان کے صحافیوں کو خراج تحسین پیش کیا اور یہ امید ظاہر کی آزادی صحافت کے خلاف ہونے والی سازشوں کو ناکام بنانے کے لیے صحافی اسی بہترین جوش و جذبے اور اتحاد کا مظاہرہ کریں گے۔