صوبائی کابینہ کا اجلاس وزیراعلیٰ نواب ثناء اللہ زہری کی صدارت میں کوئٹہ میں ہوا جس میں دوسری باتوں کے علاوہ کابینہ کو یہ بتایا گیا کہ صوبائی حکومت نے جو اناج 2010اور 2012کے درمیان کاشت کاروں سے خریدی تھی وہ خراب ہوگئی ہے اس میں کیڑیپڑ گئے ہیں اس لیے اس پرانے گندم کے اسٹاک کو عوام الناس کے لئے مضر قرار دیا گیا اور یہ فیصلہ کیا گیا کہ گیہوں کے اس پرانے اسٹاک کو جانوروں کے لیے چارہ کے طور پر استعمال کیا جائے گا۔ اس کو کسی قیمت پر عوام الناس کو فروخت نہ کیا جائے کیونکہ اس سے ان کی صحت کو خطرات لاحق رہیں گے۔ یہ بڑی خوش آئند بات ہے کہ حکومت کو یہ احساس ہواہے کہ صحت عامہ کا خاص خیال رکھا جائے اور احتیاط کے ساتھ گیہوں کے اسٹاک کو ضائع کرنے کے بجائے جانوروں کے چارہ کے طور پر استعمال میں لایا جائے۔ یہاں دو باتیں انتہائی اہم ہیں۔ پہلے تو حکومت یہ مکمل تحقیقات کرے اور عوام الناس کو بتایا جائے کہ کتنی مقدار میں گندم کا اسٹاک خراب ہوا اور اس کو کیڑے لگ گئے۔ اس کی مالیت کتنی تھی اور کون لوگ اس کے حقیقی ذمہ دار ہیں۔ اس میں دو افراد یا افسروں کی خاص طور پر تفتیش کی جائے پہلے سیکریٹری خوراک دوسرے ڈائریکٹر۔ یہ دونوں حضرات ہر چیز کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔ پرانا اسٹاک آٹے کے مل مالکان کو کیوں فروخت نہیں کیا گیا اور اس کے بعد والا اسٹاک کیوں فروخت ہوا ؟اب خطرہ یہ ہے کہ محکمہ خوراک کے افسران ملی بھگت سے یہ ناکارہ اور زہریلا گندم آٹے کے مل مالکان کو دوبارہ فروخت نہ کریں اس خراب اسٹاک کو صرف اور صرف جانوروں کے چارہ کے طور پر استعمال کیا جائے اس کو انسانی دسترس سے دور رکھا جائے۔ گزشتہ 50سالوں میں کرپشن کے الزام میں پولیس والوں سے زیادہ محکمہ خوراک کے ملازمین گرفتار ہوئے اور صوبے بھر میں اسی محکمہ کے ملازمین نے زیادہ سے زیادہ رشوت ادا کی۔ اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اتنی بڑی مقدار میں گندم کا اسٹاک کیوں خراب ہوا؟ یہ نالائقی اور بدانتظامی ہے افسران کو رشوت، تنخواہوں اور مراعات سے مطلب ہے۔ گندم کے اسٹاک کا کوئی خیال نہیں رکھا جاتا۔ قدرتی آفات ،بارشیں، سیلاب، زلزلہ میں گندم اور اناج کا ذخیرہ پہلے تباہ ہوجاتا ہے مگر ہم نے کبھی یہ نہیں دیکھا کہ بلوچستان کے نوکر شاہی نے کبھی اس پر توجہ دی اور اس کے بچانے کے لیے موثر اقدامات کیے۔گندم کے ذخیروں پر صرف ترپالیں ڈال دی جاتی ہیں۔ان تمام قدرتی آفات اور جنگوں سے بچاؤ کے لیے ورلڈ فوڈ پروگرام نے کوئٹہ میں (SILOs)بڑے بڑے گودام بنائے تھے تاکہ قدرتی آفات کے علاوہ کیڑے مکوڑوں سے گندم اور اناج کے اسٹاک کو محفوظ رکھا جاسکے مگر بلوچستان میں محکمہ خوراک کے افسروں کو ایسے نظام سے نفرت ہے جہاں پر وہ چوری نہ کرسکیں۔ گندم خراب ہونے کے بہانے دولت نہ کمائے۔ اس کی وجہ سے انہوں نے ورلڈ فوڈ پروگرام کے گوداموں کا استعمال بالکل ترک کردیا تھا کیونکہ بارش، سیلاب، قدرتی آفات اور کیڑے مکوڑوں کے بہانے گندم کا اسٹاک خراب نہیں ہوتا۔ اس لئے حکومت پرانا نظام ختم کرے اور گندم نئے نظام کے تحت SILOsبنائے جو صوبے کے تمام خطوں اور علاقوں میں قائم ہوں۔ ڈویژن ہیڈ کوارٹرز میں بڑے بڑے گودام، ضلعی اور تحصیل ہیڈ کوارٹرز میں چھوٹے چھوٹے گودام تعمیر کرے تاکہ خوراک کے لئے بلوچستان کو ایک محفوظ خطہ بنایا جائے جہاں پر فوڈ سیکورٹی کا نظام منظم ہو بلکہ یہ خطے کے ممالک کے لیے بھی فوڈ سیکورٹی اور اسٹاک کا کام دے۔ ساتھ ہی حکومت گندم اور دوسرے غذائی اجناس کی ایران اور افغانستان اسمگلنگ کو روکے صرف قانونی ذرائع سے ان ممالک کو گندم اور دیگر غذائی اجناس برآمد کی جائیں۔ جو سرکاری اہلکار اسمگلنگ کی سرپرستی کریں ان کو سخت ترین سزا دی جائے۔