|

وقتِ اشاعت :   21 hours پہلے

تربت: بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کے مرکزی ترجمان نے کہا ہے کہ یونیورسٹی آف تربت کے انتظامیہ نے جامعہ کو تباہی کے دہانے پر پہنچایا ہے

جہاں آئے روز نام نہاد ڈسپلن کے نام پر بنائی گئی کمیٹی کے زریعے طلبہ کو خاموش کرنے اور ان کے حقوق سلب کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ہاسٹلوں سے لے کر کلاس رومز تک طالبعلموں کی اکیڈمک آزادی کو سلب کرکے جامعہ کو ایک فوجی چھاؤنی میں تبدیل کیا گیا ہے۔

جہاں طالبعلموں کی جانب سے کتاب اسٹال لگانے پر پابندی ہے، علمی و شعوری سرگرمیاں کرنے پر ہراساں کیا جاتا ہے، اپنے بنیادی تعلیمی حقوق کے لئے آواز اٹھانے والوں کو دھمکیاں دے کر ان کو دیوار سے لگایا جاتا ہے اور جب طلبہ ان تمام تعلیم دشمن پالیسیوں کے خلاف اٹھ کر آواز اٹھاتے ہیں تو ان پر جھوٹے و من گھڑت الزامات لگا کر یونیورسٹی سے فارغ کرنے کی دھمکیاں دی جاتی ہیں۔

گزشتہ دنوں سے پرامن احتجاج پر بیٹھے طلبہ کے جائز مطالبات کو تسلیم کرنے کے بجائے انتظامیہ کی جانب سے طالبعلموں کو جامعہ سے فارغ کرنے کی دھمکیاں دی جارہی ہیں جس سے واضح ہوتا ہے کہ انتظامیہ سرِ عام تعلیم دشمنی پر اتر آئی ہے جس کی ہم نا صرف مذمت کرتے ہیں

بلکہ ہر ایسے تعلیم دشمن اقدام کے خلاف مزاحمت کریں گے۔ جامعہ تربت اس وقت تعلیمی حوالے سے تباہی کے دہانے پر پہنچ چکی ہے جس کی تمام تر زمہ دار موجودہ نااہل اور آمر انتظامیہ ہے۔

ایک طرف جامعہ تربت کرپشن کا گڑھ بن چکی ہے وہی میرٹ کی پامالیاں بھی عروج پر ہیں جس کی مثال جامعہ میں سفارش اور کرپشن کی عوض داخلے و بھرتیاں ہیں۔

جامعہ میں تعلیمی نظام مفلوج ہوتا جارہا ہے۔ انتظامیہ تعلیمی ماحول اور جامعہ کے حالات کو بہتر بنانے کی بجائے طالبعلموں کے اکیڈمک آزادی کو سلب کرنے، طالبعلموں کے سیاسی و علمی سرگرمیوں پر پابندیاں لگا کر طالبعلموں کی ہراسمنٹ اور پروفائلنگ میں مصروف ہے۔

جامعہ کے ہاسٹلوں کو فوجی بیرک میں تبدیل کیا گیا ہے جبکہ کیمپس میں کیمروں کے زریعے طالبعلموں پر غیر قانونی و غیر روایتی طور پر نظر رکھی جاتی ہے۔

یہ سارے اقدام طالبعلموں کو خاموش کرنے اور ان کی جائز آواز کر دبانے کی ناکام کوششیں ہیں۔جامعات علمی درسگاہ ہوتے ہیں جہاں کتب بینی و علمی بحث و مباحثے ہوتے ہیں، انہی درسگاہوں سے نوجوان تعلیم یافتہ و شعور پا کر سماج کی سیاسی و سماجی ترقی کیلیے اپنا کردار ادا کرتے ہیں مگر افسوس کے ساتھ بلوچستان کے تعلیمی اداروں میں طالبعلموں کو زاتی جاگیر سمجھ کر ان پر مختلف پابندیاں لگائی جاتی ہیں یہاں تک کہ بلوچ طالبعلم کیمپسز کے اندر آزادی کے ساتھ سانس بھی نہیں لے سکتے۔

جامعات علمی درسگاہوں سے زیادہ ہراسمنٹ کے مرکز بن چکے ہیں۔حالات یہاں تک پہنچ گئے ہیں کہ نام نہاد انتظامیہ کتاب اسٹالوں سے خوف زدہ ہیں۔ جامعہ میں کتابوں پر پابندی اور علمی سرگرمیوں کا حصہ ہونے کے پاداش میں بلوچ نوجوانوں کو ہراساں کرنا سراسر غنڈہ گردی و جارحانہ سوچ ہے اور یہی انتظامیہ ہمارے سماج کو مفلوج کرنے اور بلوچ طالبعلموں کو ہراساں کرنے میں شریکِ جرم ہیں۔

انتظامیہ میں تعینات عہدیداروں کو بلوچ سماج اور نوجوانوں کو حقیقی تعلیم و علم سے روشناس کرانے سے سروکار نہیں بلکہ ان کو اپنے کرپشن و تنخواہ کی فکر ہے کہ کس طرح ان حالات کا فائدہ اٹھا کر اپنے پیٹ بھر سکیں۔

جامعہ تربت کی انتظامیہ اپنے بلوچ دشمن، تعلیم دشمن پالیسیوں، کرپشن ، میرٹ کی پامالیاں اور دیگر کرتوتوں کو چھپانے کیلیے طالبعلموں پر من گھڑت الزامات لگا کر انہیں یونیورسٹی سے بے دخل کررہی ہے جو کہ کھلِ عام بلوچ طلبہ دشمن پالیسی کا اظہار ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *