|

وقتِ اشاعت :   1 day پہلے

کوئٹہ:  بلوچستان اسمبلی نے پبلک سروس کمیشن سمیت دیگر محکموں میں بننے والے کمشنز میں اقلیتوں کو نمائندگی دینے اور مدارس میں پڑھنے والے طلباء کو وظائف دینے کی قرار دادیں منظور کرلیں۔

وزیراعلیٰ کی یقین دہانی پر ماہی گیروں کے تحفظ کے لئے قانون سازی سے متعلق توجہ دلائونوٹس نمٹا دیا گیا۔

ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کا لاشوں کو لواحقین کے حوالے نہ کرنے اور ڈاکٹر الیاس کی گرفتاری پر تشویش کا اظہار۔

وزیراعلیٰ نے بولان آپریشن میں ہلاک دہشتگردوں کی لاشوں کی ڈی این اے رپورٹ آنے تک امانتا ً دفن کئے جانے کے حوالے آگاہ کیا۔

بلوچستان اسمبلی کا اجلاس جمعرات کو ڈپٹی اسپیکر غزالہ گولہ کی زیر صدارت شروع ہوا۔

اجلاس میں نیشنل پارٹی کے سربراہ رکن اسمبلی ڈاکٹر مالک بلوچ نے نقطہ اعتراض پر اظہارخیال کرتے ہوئے کہا کہ سول اسپتال میں 34 لاشیں پڑی ہوئی ہیںیہ لاشیں لواحقین کو نہیں دیکھائی جارہی ہیں 13 لاشیں رات کے اندھیرے میں کاسی قبرستان میں دفنا دی گئیںلاشیں مانگنے والوں پر لاٹھی چارج کیا گیا،ایسا پہلے نہیں ہوا ،جو اب کیا جارہا ہے۔

ڈاکٹر الیاس اسکے بیٹے اور داماد کو اٹھایاگیاہے اس طرح سے بلوچستان کے حالات درست نہیں ہوں گے۔

جس پر وزیراعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی نے جواب دیا کہ دہشتگردوں کو دہشتگرد ہی پکارا جائے ایوان میں انہیں فدائین کہنے کے الفاظ کو حدف کیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ بولان میں ٹرین پر حملہ کرنے والے دہشتگردوں دو حصوں میں تقسیم ہوئے کچھ وہیں رکے باقی اپنے ٹھکانے کی جانب جارہے تھے سیکورٹی فورسزاور فرار ہونے والے دہشتگردوں کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ ہوا جس میں 23افراد ہلاک ہوئے ان کی لاشیں قانون کے مطابق ڈی این اے اور شناخت کے لئے کوئٹہ منتقل کی گئیں۔

انہوں نے کہا کہ ماضی میں بھی بہت سے دہشتگرد جو فورسز کے ساتھ مقابلے میں ہلاک ہوئے کا نام مسنگ پرسنز کی فہرست میں تھا اس لئے شناخت کا عمل ضروری ہے حکومت نے ڈی این اے رپورٹ آنے تک لاشوں کو ایدھی ایمبولنس کے ذریعے امانتاً دفن کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ بی وائی سی نے جتھا بنا کر مردہ خانے پر حملہ کیا اور زبردستی لاشیں لیکر جانے لگے ان کا کام ہی لاشوں پر سیاست کرنا ہے مارے گئے لوگ سنگین دہشتگرد تھے۔

انہوں نے کہا کہ حکومت نے محکمہ داخلہ میں ایک سب ورژن سیل قائم کیا ہے جو ایسے لوگوں اور سرکاری ملازمین کی شناخت کرتا ہے جو نوجوانوں کو ریاست مخالف مائل کرنے میں سرگرم تھے ڈاکٹر الیاس بلوچ کا نام بھی اسی سیل میں شامل تھا سرکاری ملازم ہو کر لوگوں کو ریاست کے خلاف اکسانا سنگین جرم ہے لیکن حکومت نے ایسے لوگوں کو بھی سمجھایا ہے ہم اس معاملے کو دیکھیں گے۔

اجلاس میں نقطہ اعتراض پر اظہار خیال کرتے ہوئے بی این پی عوامی کے رکن میر اسد بلوچ نے کہا کہ بلوچستان میں 1948 سے آپریشن جاری ہیں ان آپریشنز سے بلوچستان کے حالات بہتر ہونے کے بجائے ابتر ہورہے ہیں ملک کو ایک نئے عمرانی معاہدے کی ضرورت ہے۔

میں بلوچستان میں کسی بھی آپریشن کی مخالفت کروں گا بلوچستان میں جیو اور جینا کی پالیسی کی ضرورت ہے۔

اسد بلوچ نے کہا کہ ڈیرہ بگٹی میں 13 ارب سے زائد رقم دی گئی ہے میرے حلقے میں فنڈ بند کئے گئے ہیں فنڈز بند کرنے سے نفرتیں پھیلیں گی۔

کل کی میٹنگ میں میں نہیں گیا، جو گئے تھے انہیں بولناچاہیے تھاسی پیک ، سینڈک اور دیکوڈک بلوچوں کے لئے نہیں ہیں، پورے بلوچستان میں روڈ بند ہیں، بلوچستان کے وسائل بلوچوں کے لئے نہیں۔

صوبائی وزیر سردار عبدالرحمن کھیتران نے کہا کہ میں نے پچھلے اجلاس میں ایف سی سے متعلق عام بات کہی تھی حامد میر کو مجھ سے بہت پیار ہے انہوں نے میرا کلپ چلایا حامد میر کو جب موقع ملتا ہے میرے کلپ چلادیتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ جیو اور جینے دو کی بات اچھی ہے ریاست ماں ہے مزدوروں کو ٹرین سے اتار کرقتل کیاجاتاہے ،یہ کون اسلام اورتہذیب ہے کہتے ہیں ریاست بندوق کے زور پرکام کررہی ہے کیا دہشت گردوں کے ہاتھ میں بندوق کی بجائے مٹھائی کے ڈبے ہیں۔

مذاکرات کی بات کرنے والے سامنے آئیں ، ریاست ماں ہے ماں سے مذاکرات کرنے سے کیوں گھبراتے ہیں بندوق کے زور پر آزادی حاصل نہیں کی جاسکتی ہے۔

پیپلز پارٹی کے رکن حاجی علی مدد جتک نے کہا کہ سریاب میں سحری اور افطار کے وقت گیس اور بجلی نہیں ہیں عوام ذہنی کوفت کا شکارہ یں اس پر کاروائی کی جائے جس پر ڈپٹی اسپیکر غزالہ گولہ نے کہا کہ عید کے بعد اس مسئلے پر حکام کو بلایا جائیگا۔

جمعیت علماء اسلام کی رکن شاہد رئوف نے کہا کہ تمام گلے شکوے حکومتی نمائندے کررہے ہیںاگرمسائل حل نہیں ہورہے ہیں تو اپوزیشن کے ساتھ آکر بیٹھ جائیں۔

قائد حزب اختلاف میر یونس عزیز زہری نے کہا کہ بے گناہوں کا قتل نہیں ہوناچاہیے ، عدالت کس لیے بنی ہیں ،انہوں نے کہا کہ کوئٹہ کراچی روڈ پر تعمیراتی کمپنی نے کام بند کردیاہے، اسی طرح زہری میں بھی زیر تعمیر ڈیم پر کام بند کردیا گیا۔

کمپنیوں کی مشینری کو آگ لگائی گئی ہے لیکن مجھے یہ معاملہ مشکوک لگتا ہے لہذا وزیراعلیٰ اس پر تحقیقات کریں۔

اجلاس میں وقفہ سوالات کے دوران وزراء کی عدم موجودگی پر قائد حزب اختلاف نے احتجاج کرتے ہوئے کہا کہ وفقہ سوالات والے دن متعلقہ وزیرنہیں آتے جس پر وزیراعلیٰ میر سرفراز بگٹی نے کہا کہ وزراء کی عدم موجودگی پر ارکان اسمبلی سے معذرت خواہ ہوں یقینی بنائونگا کہ وزیر خود آکر جواب دیں تاکہ وہ محرکیں کو مطمئن کر سکیں انہوں نے کہا کہ ڈپٹی اسپیکر بھی اس حوالے سے خط لکھیں تاکہ وزراء کی حاضری یقینی بنائی جائے۔

اجلاس میں رکن اسمبلی مولانا ہدایت الرحمن بلوچ نے توجہ دلاو نوٹس پیش کرتے ہوئے کہا کہ ساحل بلوچستان کے ماہی گیروں کے حقوق کی بابت تا حال حکومت نے کوئی قانون سازی نہیں کی مافیاز لوکل ماہی گیروں پر ظلم کرتے ہیں،کیا محکمہ فشریز لوکل ماہی گیروں کے حقوق کی بابت قانون سازی کا ارادہ رکھتی ہے؟

انہوں نے کہا کہ ٹماٹر والے بھی ٹماٹر کا ریٹ خود طے کرتے ہیں مگر ماہی گیروں کو یہ اختیار حاصل نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ سمندری حدود کو 12ناٹیکل میل سے بڑھانے کے لئے قانون سازی کی جائے۔

انہوں نے کہا کہ کمپنیاں ماہی گیروں کا مال ان پرخرچ نہیں کرتیں وزیراعلیٰ کی نیت پر شک نہیں مگر محکمہ ماہی گیری کی نیت پر شک ہے۔

جس پر وزیراعلیٰ میر سرفراز بگٹی نے کہا کہ محکمہ ماہی گیری میں ہنگامی بنیادوں پر کام جارہی ہے آج بھی وفاقی حکومت سے اس حوالے سے بات کی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ماہی گیروں کی غیر رجسٹرڈ کشتیوں کے لئے ایک بار کی استثنیٰ متعارف کروا رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ٹرالنگ کے خلاف جہاد سمجھ کر کام کر رہا ہوں حکومت ماہی گیروں کے لئے ضرور قانون سازی کریگی ساحلی حدود کے حوالے ایوان میں مشترکہ قرارداد پاس کرکے وفاق حکومت سے رجوع کریں گے۔

وزیراعلی کی یقین دہانی کے بعد توجہ دلاؤنوٹس نمٹادیاگیا۔

اجلاس میں پارلیمانی سیکرٹری اقلیتی امورسنجے کمار نے بلوچستان پبلک سروس کمیشن اوردیگرمحکموں میں بننے والے کمیشن کی تشکیل میں اقلیتوں کو بھی نمائندگی دینے کی قرارداد پیش کرتے ہوئے کہا کہ صوبہ میں بسنے والی اقلیتیں جو صوبہ کی ترقی میں اپنا بھر پور کردار ادا کرتی ہیں،بلوچستان پبلک سروس کمیشن یا کسی بھی محکمہ میں عوامی خدمات کمیشن میں اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والے مرد و خواتین کو بطور ممبر منتخب نہیں کیا جاتا ہے،صوبہ میں آباد اقلیتی کمیونیٹیز جن میں ہندو، مسیحی اور دیگر اقلیتی فرقوں میں مایوسی اور احساس محرومی پائی جارہی ہے ایوان صوبائی حکومت سے سفارش کرتا ہے کہ وہ صوبہ میں بسنے والے اقلیتوں کو بھی نمائندگی دینے کے لئے عملی اقدامات اٹھانے کو یقینی بنائے۔

انہوں نے کہا کہ جب بھی کمیشن بنتے ہیں ان میں خواتین ممبرا ن ہوتی ہیں مگر اقلیتی اراکین نہیں ہوتے لہذا حکومت پبلک سروس کمیشن سمیت دیگر کمشنز میں اقلیتوں کو بھی نمائندے دے ۔

ایوان نے قرارداد منظورکرلی۔

اجلاس میں جمعیت علماء اسلام کے رکن اسمبلی سید ظفرعلی آغا نے مدارس کے طلباء کو سکالرشپ دینے کی قرارداد ایوان میں پیش کرتے ہوئے کہا کہ صوبہ بھر میں تعلیمی نظام کی بہتری کے لئے اسکالر شپ پروگرام متعارف کیا گیا ہے،اسکالر شپ سے قوم کے طلباء و طالبات مستفید ہو رہے ہیں جو کہ ایک مستحسن اقدام ہے، اس کے برعکس صوبہ بھر کے دینی مدارس کے طلباء وطالبات مالی لحاظ سے انتہائی کمزور ہیںمدارس کے طلباء کے لئے کسی بھی قسم کا اسکالر شپ پروگرام شروع نہیں کیا گیا ہے جسکی بنا وہ بہتر تعلیم جاری رکھنے سے قاصر رہ جاتے ہیںجو دینی مدارس کے طلباء و طالبات کے ساتھ سراسر نا انصافی اور زیادتی کے مترادف ہے صوبائی حکومت عصری تعلیم کے ساتھ ساتھ دینی مدارس کے طلباء و طالبات کے لئے بھی اسکالر شپ پروگرام شروع کرنے کو یقینی بنائے۔

قائد حزب اختلاف میر یونس عزیز زہری نے کہا کہ صوبے کے رجسٹرڈ مدارس کے طلباء کو اسکالر شپ فراہم کی جائیں۔

وزیراعلیٰ نے کہا کہ مدارس کے بچے دل کے بہت قریب ہیں وہ معاشرے کا اہم حصہ ہیں اس حوالے سے جو بھی راستہ نکلا نکالیں گے۔

ایوان نے مدارس کے طلباء کو سکالرشپ دینے قرارداد منظور کرلی۔

اجلاس میں محرکین کی عدم موجودگی پر فضل قادر مندوخیل کی قرار دادیں اور وقفہ سوالات کو موخر کردیا گیا۔

بعدازاں ڈپٹی اسپیکر نے بلوچستان اسمبلی کا اجلاس غیر معینہ مدت تک کے لئے ملتوی کردیا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *