بلوچستان میں صحت کی بنیادی سہولیات کی فراہمی ایک دیرینہ مسئلہ ہے۔
صوبے میں صحت کی صورتحال اس قدر ناقص ہے کہ کوئٹہ کے بڑے سرکاری اسپتالوں سمیت 34 اضلاع میں قائم ڈی ایچ کیوز کی حالت انتہائی ابتر ہے۔
سرکاری اسپتالوں میں مشینری سمیت ادویات ناپید ہیں حالانکہ ہر بجٹ میں صحت کے شعبے کی بہتری کے لیے حکومت بلوچستان کی جانب سے اربوں روپے رقم مختص کئے جاتے ہیں لیکن موثر منصوبہ بندی نہ ہونے کی وجہ سے ایک خطیر رقم لیپس ہو جاتی ہے جس میں محکمہ صحت کی نااہلی کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
سرکاری اسپتالوں کا عوام اس امید کے ساتھ رخ کرتے ہیں کہ انہیں مفت اور بہتر علاج کی سہولت ملے گی مگر افسوس مشینری اور ادویات نہ ہونے کے باعث انہیں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
پھر مجبوری میں غریب عوام ٹیسٹ باہر کراتے ہیں جبکہ مہنگی ادویات بھی انہیں میڈیکل اسٹورز سے خریدنا پڑتے ہیں جس کی وہ سکت نہیں رکھتے، بیشتر شہری علاج کیلئے نجی اسپتالوں یا پھر ملک کے دیگر شہریوں کا رخ کرتے ہیں تاکہ وہ اپنی یا اپنے پیاروں کی زندگی کو محفوظ بناسکیں۔ بلوچستان کے دارالخلافہ کوئٹہ کے بڑے سرکاری اسپتالوں میں جب علاج کی سہولیات دستیاب نہیں تو اندرون بلوچستان کے دیگر اضلاع کے ڈی ایچ کیوز کی صورتحال کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے ۔
ملک کے دیگر صوبوں میں سرکاری اسپتالوں میں بہترین سہولیات اور جدید مشینری سمیت علاج معالجے کیلئے تمام تر آلات موجود ہیں گوکہ یہاں بھی ادویات کی فراہمی کا مسئلہ موجود ہے مگر علاج بہتر طریقے سے کیا جاتا ہے۔
بلوچستان میں صحت کا شعبہ انتہائی زبوں حالی کا شکار ہے جس کا اعتراف خود حکومتیں کرتی آئی ہیں کہ اربوں روپے مختص ہونے کے باوجود بھی عوام کو صحت کی سہولت میسر نہیں۔
گزشتہ روز وزیراعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی کی زیر صدارت محکمہ صحت کا اجلاس ہوا جس میں وزیر اعلیٰ بلوچستان نے صحت کے شعبے کی بہتری کیلئے ادارہ جاتی اصلاحات ایکٹ لانے کا فیصلہ کیا ۔
انہوں نے کہا کہ عوامی وسائل کا ضیاع قطعاً قابل برداشت نہیں، محکمہ صحت بلوچستان کو ہر سال 80 ارب روپے سے زائد دیئے جاتے ہیں، اتنی رقم میں تو بلوچستان کے ہر شہری کا علاج مہنگے ترین نجی اسپتال میں ہوسکتا ہے۔
وزیراعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی کی یہ بات سو فیصد درست ہے کہ 80 ارب روپے سے زائد رقم دینے کے باوجود بھی اگر عوام مستفید نہیں ہورہی تو یقینا محکمہ صحت کی کارکردگی پر سوال اٹھتے ہیں کہ یہ رقم کہاں جارہی ہے ،اس کی تحقیقات لازمی ہونی چاہئے یہ عوام کے پیسے ہیں اور انہی کی فلاح و بہبود پر خرچ ہونے چاہئیں۔
مبینہ کرپشن کرکے صحت جیسے اہم شعبہ کے ساتھ زیادتی انسانی اخلاق سے عاری عمل ہے، حکومتی سطح پر رقم کی آڈٹ ہونی چاہئے تاکہ اصل حقائق سامنے آسکیں ۔
یقینا ادارہ جاتی اصلاحات ایکٹ لانے کی ضرورت ہے تاکہ محکموں کی کارکردگی بہتر ہوسکے اور عوام کو اس کا فائدہ پہنچ سکے اور بلوچستان کے تمام سرکاری اسپتال فنکشنل ہوکر بہترین علاج معالجے کی سہولیات فراہم کرسکیں۔
بلوچستان میں صحت کے شعبہ کے لیے اربوں روپے مختص، کارکردگی صفر، وزیراعلیٰ کا ادارہ جاتی اصلاحات ایکٹ لانے کا فیصلہ

وقتِ اشاعت : April 11 – 2025
Leave a Reply