سندھ میں اس وقت’’ گرین پاکستان‘‘ منصوبے کے تحت نہریں نکالنے کے خلاف شدید احتجاج جاری ہے۔
سندھ کی تمام سیاسی و قوم پرست جماعتیں نہریں نکالنے کے منصوبے کے خلاف ہیں اور وفاقی حکومت کے خلاف سراپا احتجاج ہیں جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی نے بھی پانی تقسیم کے معاملے پر وفاق کے سامنے اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا ہے۔
صوبوں کے درمیان پانی تقسیم کا معاملہ دیرینہ ہے اورآج بھی یہ مسئلہ اپنی جگہ برقرار ہے۔
ہر صوبے کو یہ شکایت ہے کہ انہیں اپنے حصے کا پانی نہیں دیا جارہا خاص کر سندھ اور پنجاب کے درمیان یہ مسئلہ دیرینہ ہے۔
1991ء میں پانی کی تقسیم کا معاہدہ ہونے کے کچھ ہی عرصے بعد سندھ اور پنجاب میں پانی کی تقسیم پر اختلافات پیدا ہوگئے تھے اور پنجاب نے 1992ء کے معاہدے کو مسترد کرتے ہوئے پانی کی تقسیم ’تاریخی حصص’ کی بنیاد پر حاصل کرنا شروع کردیا تھا۔
1994ء میں جب دونوں صوبوں میں پانی کی تقسیم پر اختلافات شدید ہوگئے تھے تو اس وقت بینظیر بھٹو کی حکومت کے وفاقی وزیر برائے پانی و بجلی غلام مصطفٰی کھر نے چاروں صوبوں کے آبپاشی کے وزراء کو بلا کر اس بات پر راضی کیا تھا کہ فی الحال پانی کی تقسیم ’تاریخی حصص‘ کی بنیاد پر جاری رکھتے ہیں اور 1991ء کے معاہدے پر عمل درآمد کے لیے بعد میں حل نکالیں گے لیکن آج تک اس کا حل نہیں نکالاجا سکا۔ 1991ء کے معاہدے کے بارے میں پنجاب کا مؤقف ہے کہ جتنی مقدار میں پانی اس معاہدے میں ظاہر کیا گیا ہے اس مقدار میں پانی دستیاب نہیں ہے اس لیے وہ اس معاہدے کی بناء پر پانی کی تقسیم کو نہیں مانتے۔
ان کا مؤقف ہے کہ نئے ڈیمز بننے کے بعد اس پر عمل کیا جاسکتا ہے جبکہ سندھ کا موقف پنجاب کے برعکس ہے اور وہ الزام لگاتے ہیں کہ پنجاب نے کالا باغ ڈیم بنانے کی خاطر یہ موقف اختیار کر رکھا ہے۔
اب اس تنازعہ نے شدت اختیار کرلیا ہے وفاقی اور سندھ حکومت بھی آمنے سامنے آگئے ہیں مگر اس مسئلے کل حل کیسے سے نکالنا ہے اس پر کوئی واضح موقف سامنے نہیں آرہا ۔
وفاقی وزیر برائے آبی وسائل معین وٹو نے کہا ہے کہ گرین پاکستان منصوبے کے تحت دو نہریں سندھ ، دو پنجاب میں اور ایک بلوچستان میں بننی ہے۔
انہوں نے انکشاف کرتے ہوئے کہا کہ نہروں کا معاملہ غلط فہمی اور مشاورت نہ ہونے کے باعث تنازع کا شکار ہوا تاہم اب اس پر مذاکرات شروع ہو چکے ہیں اور اب یہ معاملہ خوش اسلوبی سے طے پا جائے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ ہر صوبہ اپنے حصے کے پانی کو اپنی مرضی سے استعمال کر سکتا ہے۔
دوسری جانب وفاق اور سندھ حکومت نے نہروں کا مسئلہ مذاکرات سے حل کرنے پر اتفاق کرلیا ہے۔
صدر ن لیگ نواز شریف کی ہدایت پر رانا ثناء اللہ نے وزیرِ اطلاعات سندھ شرجیل میمن سے فون پر رابطہ کیا جس میں رانا ثنا نے کہا کہ نہروں کے معاملے پر سندھ سے مذاکرات کے لیے تیار ہیں۔
رانا ثنا ء اللہ نے کہا کہ میاں نواز شریف اور شہباز شریف نے ہدایت کی ہے کہ نہروں کے معاملے پر سندھ کے تحفظات دور کیے جائیں۔
شرجیل میمن نے کہا کہ پیپلز پارٹی اور سندھ حکومت کو دریائے سندھ سے نہریں نکالنے پر شدید تحفظات ہیں، پیپلز پارٹی بھی نہروں کے معاملے پر وفاقی حکومت سے مذاکرات کے لیے تیار ہے۔
انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی سندھ کے عوام کے لیے 1991 کے معاہدے کے تحت پانی کی منصفانہ تقسیم چاہتی ہے۔
بہرحال تمام صوبے پانی کیمنصفانہ تقسیم چاہتے ہیں تاکہ صوبوں میں زراعت کا شعبہ ترقی کرسکے اور آبی قلت کا دیرینہ مسئلہ حل ہوسکے مگر یہ دیرینہ مسئلہ حل ہونے کی بجائے سیاست کی نظر ہوتا جارہا ہے ۔
لہذا مسئلے کے حل کی طرف وفاقی حکومت توجہ دے اوریقینی بنائے کہ تمام صوبوں کو برابر پانی ملے ،کسی کی حق تلفی نہ ہو تاکہ وفاق اور صوبوں کے درمیان مزید بداعتمادی پیدا نہ ہو۔
صوبوں میں پانی تقسیم فارمولے پر اختلافات، پانی کی منصفانہ تقسیم، مسئلے کا حل!

وقتِ اشاعت : 9 hours پہلے
Leave a Reply