|

وقتِ اشاعت :   11 hours پہلے

23 جنوری 2025ء کو وزیراعظم شہباز شریف نے وفاقی کابینہ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ گوادر ایئرپورٹ نے باقاعدہ کام شروع کر دیا ہے، یہ خوش آئند بات ہے کیونکہ یہ انتہائی اہم منصوبہ ہے جس کے لئے چین نے 230 ملین ڈالر دئیے۔
گوادر ایئرپورٹ کا شمار پاکستان کے بڑے ہوائی اڈوں میں ہوتا ہے، اگر یہ ایئرپورٹ کاروباری مقاصد کے لئے استعمال ہوتا ہے تو بلوچستان اور پاکستان کی معیشت کو فائدہ پہنچے گا۔
و\زیراعظم کا یہ بھی کہنا تھا کہ چین نے یہ ایئرپورٹ تحفے میں دیا ہے، اِس کی قدر کی جانی چاہیے، کراچی کی بندرگاہیں پہلے ہی تنگ ہیں، وہاں آمدورفت کا بے تحاشہ بوجھ ہے۔
عالمی بینک نے ایک طویل مدتی شراکت داری کا فیصلہ کیا ہے جس کے تحت آئندہ 10سالوں میں مختلف شعبوں میں 20 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی جائے گی، گو کہ یہ قرض ہے مگر ہمیں اِسے خوش آمدید کہنا چاہیے۔
وزیراعظم میاں محمد شہباز شریف سمیت ماضی میں بھی وزراء اعظم گوادر پورٹ کی ترقی کو گیم چینجر اور بلوچستان کی ترقی سے جوڑتے رہے ہیں اور یہ عملًا ہونا بھی چاہئے کہ گوادر پورٹ کی فعالیت اور تجارتی سرگرمیوں سے ہونے والے فوائد سب سے پہلے مقامی لوگوں کوملنا چاہئے اور بلوچستان کی ترقی و خوشحالی اولین ترجیح ہونی چاہئے مگر گزشتہ روز گوادر پورٹ اتھارٹی کی جانب سے ایک مراسلہ سامنے آیا جس میںحکومت بلوچستان کو کہا گیا ہے کہ گوادر پورٹ سے حاصل آمدنی میں بلوچستان کا کوئی حصہ نہیں ہے۔
گوادر پورٹ اتھارٹی کے مراسلے میں کہا گیا ہے کہ گوادر پورٹ کا آپریشنل انتظام چین کی کمپنی کے پاس ہے۔
مراسلے کے متن کے مطابق بندرگاہ کے 2 آپریٹنگ ادارے گوادر پورٹ اتھارٹی کو 9، 9 فیصد آمدنی دے رہے ہیں، ایک ادارہ اپنی آمدنی کا 15 فیصد گوادر پورٹ اتھارٹی کو دے رہا ہے۔
وزیراعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی نے معاملہ وفاقی حکومت کے سامنے اٹھانے کی یقین دہانی کرائی ہے۔
بہرحال اس میں کوئی دورائے نہیں کہ محل وقوع کے لحاظ سے گوادر پورٹ خاصا اہم ہے کیونکہ یہ گرم سمندری پانی کے علاقے میں واقع ہے۔
دنیا کی بہت کم بندرگاہوں کو یہ سہولت حاصل ہوتی ہے۔
گرم پانی والی بندرگاہ سارا سال تجارتی جہازوں کی آمدورفت کے لئے فنکشنل رہ سکتی ہے، ٹھنڈے پانی کی بندرگاہوں کے برعکس گرم پانی کی بندرگاہ پر سمندری ترسیل میں کوئی رکاوٹ نہیں آتی۔
جدید تجارت میں سمندری راستوں کی ضرورت میں اضافہ ہوا ہے،ایسے میں گوادر کی اہمیت ایک ’’بحری گیٹ وے‘‘ کی مانند ہے۔
پاکستان گوادر پورٹ کی وجہ سے خطے میں سمندری ترسیل کے حوالے سے سب سے زیادہ جیو سٹرٹیجک پوزیشن کا حامل ہے۔
جنوب ایشیائی، مغربی ایشیاء اور وسط ایشیائی ریاستوں کے مابین ٹرانزٹ ٹریڈ میں گوادر پورٹ کو مرکزی حیثیت حاصل ہو گی،ساحلی تجارت سے خطے کے دیگر ممالک افغانستان، ترکمانستان، قازقستان، عمان، ایران، قطر، سعودی عرب اور چین کے ساتھ معاشی رابطوں کے نئے دور کے آغاز سے پاکستان معاشی ترقی اور خوشحالی کی راہ پر گامزن ہو گا۔
اب گوادر پورٹ اتھارٹی کا مراسلہ انتہائی حیران کن ہے کہ بلوچستان کو اپنے ہی پورٹ سے ہونے والی آمدن میں حصہ نہیں دیا جارہا جو کہ بلوچستان کے ساتھ زیادتی ہے ۔
بلوچستان کو یہ شکوہ ہمیشہ رہا ہے کہ ہمارے وسائل کو لوٹ کر کھایا جارہا ہے اور ہمیں اس میں کوئی حصہ نہیں دیا جاتا۔
اس پر تمام بلوچستان کی سیاسی جماعتیں و شخصیات متفق ہیں کہ بلوچستان کو اس کے حقوق ملنے چاہییں تاکہ صوبے کی پسماندگی و محرومی کا خاتمہ ہوسکے، بلوچستان ترقی و خوشحالی کی راہ پر گامزن ہوسکے ۔
گوادرپورٹ سے حاصل آمدنی سے بلوچستان کو حصہ نہ ملنے کے حوالے سے وزیراعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی وفاق خاص کر وزیراعظم کے سامنے معاملات رکھے اور بھرپور طریقے سے مقدمہ لڑے کیونکہ بلوچستان کے عوام کو ان کے اپنے وسائل سے محروم رکھنے سے ایک نیا تنازعہ کھڑا ہوگا جو کہ موجودہ حالات اس کا متحمل نہیں ہوسکتے ۔
لہذا وزیراعظم اور وفاق بھی خود اس معاملے کو سنجیدگی سے لیں اور اس مسئلے کو فوری حل کریں، بلوچستان اور وفاق کے درمیان خلیج کو مزید نہ بڑھایا جائے جس طرح ماضی کی پالیسیوں میں بلوچستان کو نظر انداز کیا گیا ۔
موجودہ حالات میں بلوچستان پر زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے کیونکہ صوبے کے جو حالات ہیں اس قسم کی حق تلفی کی خبریں اس کو مزید مہمیز دینے کا کام کریں گی۔
امید رکھتے ہیں کہ وزیراعلیٰ بلوچستان وفاق سے خالی ہاتھ نہیں لوٹیں گے کیونکہ اسلام آباد میں ان کی باتوں کو بہت اہمیت دی جاتی ہے اور وہ وفاق میں بلوچستان کے نمائندے کے طورپر ایک قابل قدر مقام رکھتے ہیں ۔
یقینا وزیر اعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی گوادر پورٹ کی آمدنی میں سے کم سے کم نصف حصہ اہل بلوچستان کے لیے لے کرآئیں گے تاکہ وفاق اور صوبائی حکومت کے خلاف منفی پروپیگنڈہ کرنے والوں کو کرارا جواب دیا جاسکے۔

 

 

 

 

 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *