|

وقتِ اشاعت :   10 hours پہلے

حکومت نے قومی اسمبلی میں ایک تاریخی بل متعارف کرایا ہے جس کا مقصد پیٹرولیم مصنوعات کی درآمد اور پیداوار سے لے کر ریٹیل فروخت تک اس کی ڈیجیٹل نگرانی کو یقینی بنانا ہے تاکہ اسمگلنگ اور ملاوٹ کو روکا جا سکے، یہ عوامل نہ صرف ماحول اور گاڑیوں کے انجنوں کو نقصان پہنچاتے ہیں بلکہ ہر سال خزانے کو 300 سے 500 ارب روپے کا خطیر نقصان بھی پہنچاتے ہیں۔

 وزیر پیٹرولیم علی پرویز ملک کی جانب سے پیش کردہ پیٹرولیم (ترمیمی) ایکٹ 2025 پیٹرولیم ایکٹ 1934 میں ترمیم کی کوشش ہے، مجوزہ قانون میں نئی شقیں شامل کی گئی ہیں جن کے تحت انفارمیشن ٹیکنالوجی پر مبنی نظام کے ذریعے پیٹرولیم مصنوعات کی نگرانی کی جائے گی تاکہ اسمگلنگ کو روکا جا سکے اور غیر قانونی نقل و حمل اور ڈی‌کنٹیشن (یعنی غیر محفوظ طریقے سے پیٹرول کی منتقلی) کے خلاف سخت کارروائی کی جا سکے، ساتھ ہی غیر قانونی پیٹرول پمپس کے خلاف بھی اقدامات کیے جائیں گے۔

ملک کی تمام مقامی ریفائنریز اور بڑی آئل مارکیٹنگ کمپنیاں انفرادی اور اجتماعی طور پر طویل عرصے سے حکومت سے یہ مطالبہ کر رہی تھیں کہ وہ سرحدوں پر اور ملک کے اندر پیداوار اور فروخت کے مقامات پر سخت اقدامات کرے تاکہ پیٹرولیم مصنوعات، بشمول ایل پی جی کی اسمگلنگ کو روکا جا سکے، کیونکہ یہ نہ صرف ان کے کاروبار کو متاثر کرتی ہے بلکہ حکومت کو بھی بھاری مالی نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔

سنہ 2020 میں اُس وقت کے وزیرِاعظم کے حکم پر کی گئی ایک انکوائری میں اندازہ لگایا گیا تھا کہ سالانہ 250 ارب روپے سے زائد مالیت کی پیٹرولیم مصنوعات زیادہ تر ایران سے پاکستان میں اسمگل کی جا رہی ہیں۔

اپریل 2024 میں ایک مشترکہ انٹیلیجنس رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ یومیہ تقریباً ایک کروڑ لیٹر ایرانی پیٹرول اور ڈیزل زمینی اور سمندری راستوں سے پاکستان میں داخل ہو رہا ہے، جس سے حکومت کو 227 ارب روپے سے زائد کے ریونیو کا نقصان ہو رہا ہے۔

رپورٹ میں ملک کے تقریباً 12 قانون نافذ کرنے والے اداروں میں موجود100 کالی بھیڑوں، ملک بھر میں قائم533 غیر قانونی پیٹرول پمپس کے مالکان اور آپریٹرز کے علاوہ ایرانی تیل کے 105 اسمگلرز کی تفصیلات فراہم کی گئی ہیں۔

رپورٹ میں غیر رسمی سرحدی راستوں اور ان راستوں کی مکمل معلومات بھی فراہم کی گئیں جن سے اسمگل شدہ سامان پاکستان کے مختلف حصوں میں پہنچایا جاتا ہے۔

تیل کی صنعت سے وابستہ حکام اور ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ رپورٹس تو محض ایک سرسری سا نمونہ ہے، اور ان رپورٹس میں پیٹرولیم مصنوعات میں ملاوٹ کے غیر قانونی کاروبار اور اس کی طریقہ کار کو مکمل طور پر نہیں سمیٹا گیا۔

نئے قانون کی شقوں کے تحت حکومت کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ کسٹمز ایکٹ 1969کے تحت ڈپٹی کمشنرز، اسسٹنٹ کمشنرز اور نامزد افسران کے ذریعے پیٹرولیم مصنوعات، مشینری، سازوسامان، نقل و حمل اور ذخیرہ کرنے کی سہولتوں کو سزا سے پہلے اور بعد میں ضبط کر سکے، تاکہ غیر قانونی سرگرمیوں کے خلاف سخت انتظامی کارروائیاں عمل میں لائی جا سکیں۔

تیز قانونی کارروائی کو یقینی بنانے کے لیے مجوزہ قانون کے تحت مقدمات کی سماعت کے اختیارات سیشن عدالتوں کو دیے جائیں گے، جبکہ انتظامی عمل درآمد کی ذمہ داری ڈپٹی کمشنرز ور اسسٹنٹ کمشنرز کو سونپی جائے گی۔

ایک اور شق میں ہائی کورٹ میں اپیل کے حق کی ضمانت دی گئی ہے، جبکہ ایک اور شق کے تحت ڈپارٹمنٹ آف ایکسپلوزوز یا دیگر متعلقہ ریگولیٹری اداروں کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ مخصوص مدت کے اندر لائسنس کی تجدید، توسیع یا نئے لائسنس کے اجرا کا فیصلہ کریں۔

ایک اہم شق میں پیٹرولیم مصنوعات کی ڈیجیٹل نگرانی اور ٹریکنگ کا فریم ورک پیش کیا گیا ہے، جس میں ریئل ٹائم ڈیٹا اور سرکاری اداروں کے درمیان ہم آہنگ کارروائی کے ذریعے پیٹرولیم مصنوعات کے ذخیرے کے مقامات، پیٹرول پمپس اور ٹرانسپورٹ گاڑیوں کو آئی ٹی سسٹمز کے ذریعے ٹریک کرنے کا نظام شامل ہے۔

مسودہ قانون کے تحت کوئی بھی فرد اگر غیر قانونی طور پر پیٹرولیم مصنوعات کی درآمد، نقل و حمل، ذخیرہ، پیداوار یا فروخت میں ملوث پایا گیا تو اسے 10 لاکھ روپے جرمانہ ہوگا، جو دوبارہ خلاف ورزی کی صورت میں 50 لاکھ روپے تک بڑھ سکتا ہے، بغیر لائسنس کے چلنے والی تنصیبات کو سیل کر دیا جائے گا اور ان کی مشینری، ٹینک اور اسٹاک ضبط کر لیا جائے گا۔

ایسے ادارے کے مالک پر ایک کروڑ روپے تک جرمانہ عائد کیا جائے گا، منسوخ یا معطل لائسنس کے حامل افراد کو 6 ماہ کی مہلت دی جائے گی تاکہ وہ تجدید کرا سکیں، اس مدت میں تجدید نہ کرانے کی صورت میں ضبطی عمل میں لائی جائے گی اور 10 لاکھ روپے جرمانہ ہوگا۔

ڈپارٹمنٹ آف ایکسپلوزوز موصول ہونے والی مطلوبہ دستاویزات اور فیس کے بعد ایک ماہ کے اندر لائسنس کی تجدید کرے گا۔

اگر کسی عمارت یا تنصیب میں اسمگل شدہ پیٹرولیم مصنوعات کا ذخیرہ یا فروخت کی جا رہی ہو تو اُس کے مالک کو سخت کارروائی کا سامنا ہوگا، ایسی تنصیب کو بند کر دیا جائے گا، تمام مشینری، ساز و سامان، مواد، اسٹوریج ٹینکس اور پیٹرولیم مصنوعات جو استعمال یا فروخت ہو رہی ہوں گی، انہیں ضبط کر لیا جائے گا، مالک پر 10 کروڑ روپے کا جرمانہ عائد کیا جائے گا، اور اُس تنصیب کا ائسنس منسوخ** کر دیا جائے گا۔

علاوہ ازیں، ایسا کوئی بھی ذریعۂ نقل و حمل (گاڑی، ٹرک، ٹینکر وغیرہ) جو اسمگل شدہ پیٹرولیم مصنوعات کی ترسیل میں استعمال ہو رہا ہو، وہ بھی ضبط کر لیا جائے گا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *