کوئٹہ : بلوچستان گرینڈ الائنس نے صوبائی حکومت کو 12 نکاتی مطالبات منوانے کے لیے 2 روز کا الٹی میٹم دیتے ہوئے مطالبات تسلیم نہ ہونے کی صورت میں 22 مئی سے 31 مئی تک احتجاجی تحریک شروع کرنے کا اعلان کردیا
جس میں بازوئوں پر سیاہ پٹیاں باندھ کر اور محکموں میں قلم چھوڑ احتجاج ، احتجاجی جلسے اور ریلیاں ، مظاہرے کوئٹہ پریس کلب کے سامنے احتجاجی بھوک ہڑتالی کیمپ اور تمام اضلاع کے پریس کلب کے سامنے کیمپ لگائے جائیں گے اور بجٹ سیشن کے روز اسمبلی کا گھیرائو کرکے دھرنا دیا جائے گا۔
ان خیالات کا اظہار مرکزی آرگنائزر پروفیسر عبدالقدوس کاکڑ ، مرکزی سیکرٹری جنرل حاجی علی اصغر بنگلزئی، فرید خان اچکزئی اور دیگر نے منگل کو کوئٹہ پریس کلب میں مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران کیا۔ اس موقع پر حاجی شفاء مینگل، علی بخش جمالی، طارق کدیزئی، یونس کاکڑ، شاہ علی بگٹی سمیت دیگر بھی موجود تھے۔
عبدالقدوس کاکڑ نے کہا کہ بلوچستان میں سب سے زیادہ ٹیکس ملازمین دیتے ہیں اور سب سے زیادہ مسائل کا سامنا بھی ملازمین کو کرنا پڑرہا ہے جبکہ حکومت بلوچستان سرکاری ملازمین کے مسائل حل کرنا نہیں چاہتی انہوں نے مزید کہا کہ پنشن اصلاحات کے نام پر ملازم دشمن پالیسیاں کسی صورت منظور نہیں اور حکومت سرکاری محکموں کی نجکاری اور کنٹریکٹ پر بھرتی کا سلسلہ بند کیا جائے
حکومت آئندہ مالی سال کے بجٹ میں مہنگائی کی تناسب سے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں ا ضافہ کرے انہوں نے کہا کہ اگر حکومت نے ہمارے مسائل کے حل اور 12 مطالبات تسلیم نہیں کئے تو ہم احتجاج کرنے پر مجبورہونگے جس میں پہلے مرحلے میں 22 اور 23 مئی کو سرکاری ملازمین بازوئوں پر سیاہ پٹیاں باندھیں گے ۔اور پرنٹ ، سوشل میڈیا پر مہم چلائیں گے
25 اور 26 مئی کو تمام سرکاری دفاتر بشمول تعلیم و صحت میں مکمل قلم چھوڑ احتجاج ہوگا جبکہ 28 اور 29 مئی کو تمام سرکاری دفاتر میں کسی بھی قسم کا سرکاری اور غیر سرکاری ڈاک نہیں بھیجا گیااگر پھر بھی حکومت نے ہمارے مطالبات تسلیم نہیں کئے تو دوسرے مرحلے میں 30مئی کوکوئٹہ سمیت صوبہ بھر میں احتجاجی ریلیاںنکالیں گے مظاہرے اور جلسے ہوں گے31 مئی سے 3 جون تک کوئٹہ پریس کلب اور تمام ضلعوں میں پریس کلبز کے سامنے احتجاجی بھوک ہڑتالی کیمپس لگائے جائیں گے اور بجٹ سیشن سے ایک روز پہلے بلوچستان بھر سے سرکاری ملازمین کوئٹہ پہنچیں گے
اور بجٹ سیشن کے روز بلوچستان اسمبلی کا گھیرائو کرکے دھرنا دیا جائے گامطالبات تسلیم نہ ہونے کی صورت میں کور کمیٹی کی مشاورت سے سخت فیصلے کرکے احتجاج میں مزید وسعت لاتے ہوئے سخت احتجاجی پروگرام شروع کریں گے انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے ساڑھے 3 لاکھ ملازمین اپنی بقاء کیلئے احتجاج کے ذریعے اپنی جدوجہد کو جاری رکھیں گے جس کی اجازت ہمیں آئین اور قانون نے دیا ہے۔
Leave a Reply