|

وقتِ اشاعت :   1 day پہلے

کوئٹہ : سینئر سیاستدان سابق سینیٹر نوابزادہ حاجی میر لشکری رئیسانی نے مائنز اینڈ منرلز ایکٹ کو عدالت میں چیلنج کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہر حال میں بلوچستان کے وسائل اور حقوق کا دفاع کریں گے ، اپوزیشن کے جن ارکان نے صوبے کے وسائل دوسروں کے ہاتھ میں دیئے وہ ایکٹ کے خلاف قرارداد لائیں یا پارلیمنٹ سے مستعفی ہوجائیں،بلوچستان کا مسئلہ قومی ہے لیکن 70 سال میں اس کو طبقاتی مسلہ پیش کرکے مسائل کو الجھایا گیا اور اس کی بہتری کیلئے کوئی کردار ادا نہیں کیا گیا۔

یہ بات انہوں نے منگل کو کوئٹہ پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہی ۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے وسائل بے دریغ طریقے سے طاقت کے زور پر لوٹے جارہے ہیں اور اب وسائل لوٹنے کیلئے کراچی سے ایک فرضی ادارہ لاکر ان کو پیسے کھلائے جارہے ہیں ۔ صاف اور شفاف عمل کا راستہ روک کر ریاست کے سہولت کار بدامنی میں اضافہ کررہے ہیں ،تعلیمی اداروں میں اس طرح کے منفی اقدامات اٹھاکر نوجوان نسل اور قوموں کا مستقبل تباہ کرکے ان کے لئے زہر قاتل ثابت ہورہے ہیں ،اس وقت حالات کی وجہ سے صوبے کے لوگ اور حقیقی وارث بری طرح متاثر ہیں ، ان حالات میں خاموش رہنا بھی جرم تصور ہوتا ہے ۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت بلوچستان میں کوئی اپوزیشن نہیں ، صوبے کے وسائل کی لوٹ مار میں سب شامل ہیں ، آئندہ نسلوں کی بقا کیلئے سب کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا انہوں نے کہا کہ موجودہ اسمبلی سے مائنز اینڈ منرلز ایکٹ پاس کرایا گیا ، اب معدنیات کے حوالے سے اختیار صوبے کا نہیں ، بلوچستان کے لوگ اپنی سرزمین پر اجنبی بن گئے ، اپوزیشن قرارداد لائے کہ اسے مائنز اینڈ منرلز ایکٹ قبول نہیں یا مستعفی ہوجائے ، ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ مائنز اینڈ منرلز ایکٹ کو عدالت میں چیلنج کرینگے ،

اس حوالے سے دیگر سیاسی جماعتوں کو بھی اعتماد میں لیں گے ۔ انہوں نے کہا کہ 2013 میں ڈیل کے ذریعے حکومت لائے جانے والوں کے ذریعے 5 منٹ میں ڈی ایچ اے کا ایکٹ منظور کرایا گیا اور بلاپیمودہ زمینوں کا اختیار سرکار کو دیا گیا جبکہ ہم نے صوبوں کو 2008 میں صوبائی خودمختاری اور 18 ترمیم کے ذریعے اختیارات دیئے لیکن 2013 سے 2018 میں ان کو پامال کیا گیا 2008 میں بننے والی حکومت نے گوادر کو سرمائی دارالحکومت بنانے کا فیصلہ کیا جسے بعد میں آنے والی حکومت نے واپس کیا ہم نے ریکوڈک کا معاہدہ منسوخ کرایا لیکن 600 بلین ڈالر کا اثاثہ ایک بار پھر پراسرار اور مشکوک طریقے سے دوسروں کے حوالے کیا گیا جس میں سیاسی جماعتیں بھی شامل رہی ہیں ان کا احتساب ووٹ کے ذریعے کرنا ناگزیر ہے ۔

انہوں نے کہا کہ قومیں بعض اوقات تکلیف اور بحرانوں سے گزرتی ہیں ، ہماری تاریخی سرزمین پر آج بدامنی ہے ، بہت سے لوگ بحرانوں سے فائدہ اٹھا رہے ہیں ، بلوچستان اس وقت بہت بڑے بحران سے گزر رہا ہے اور آنے والے دنوں میں مزید بحران نظر آرہے ہیں ، ہمارے تعلیمی ادارئے اکثر بند رہتے ہیں ہمارے سینکڑوں سال کے قومی نظم کو ختم کردیا گیا ہے جو قومی وطن کی بات کررہے تھے۔انہوں نے کہا کہ سیاسی کارکنوں و سماجی عمائدین پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ لوگوں میں شعور اجاگر کرنے کے لئے اپنا کردار ادا کریں ۔ صوبے میں بدامنی ، افراتفری اور حالات خراب کرکے شارٹ کٹ اختیار کرنے والے عروج پر پہنچ چکے ہیں ہم نے ان کا راستہ روکنا ہے ۔

ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ چیف آف سراوان نواب محمد اسلم رئیسانی نے ہر موقع پر بلوچستان کے وسائل ، حقوق کا دفاع کیا اور کسی بھی ایسے معاہدے یا پروگرام کا حصہ نہیں بنے جس میں بلوچستان کے وسائل کا سودا کیا گیا ہو جس میں ریکوڈک کے حوالے سے ہونے والے اجلاس کا بھی بائیکاٹ کیا انہوں نے اپنے وزارت اعلی کے دور حکومت میں صوبے میں ہونے والی قتل و غارت گری کے حوالے سے ایوان میں بااختیار کمیشن بنانے کا مطالبہ کیا لیکن اس پر عملدرآمد نہیں کیا گیا ۔

ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ دانستہ طور پر پارلیمانی سیاست سے لوگوں کو دور رکھا گیا ہے جس کی وجہ سے حالات خراب ہورہے ہیں ۔ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ نوجوان ماضی کے انتخابات سے سبق سیکھیں کیونکہ ایک بار پھر آنے والے پانچ سالوں کے لئے منظورنظروں کے لئے راہ ہموار کی جائے گی نوجوان نسل نے سہولت کاروں کا راستہ روکنا ہوگا ۔

 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *