|

وقتِ اشاعت :   May 21 – 2016

کوئٹہ: بلوچ نیشنل فرنٹ کے مرکزی ترجمان نے بلوچستان کے مختلف علاقوں میں جاری فورسز کی کارروائیوں کو بلوچ نسل کشی کی پالیسی قرار دیتے ہوئے کہا کہ 28 مئی کو بلوچستان میں ہونے والی ایٹمی دھماکوں اور جاری آپریشن کے خلاف بلوچستان بھر میں پہیہ جام اور شٹر ڈاؤن ہڑتال کی جائے گی پچھلے کئی دنوں سے مکران کے علاقے دشت،سائجی اور گردنواع کے علاقے فورسزکے محاصرے میں ہیں۔ علاقے کے داخلی و خارجی راستوں کو سیل کرکے موصلاتی نظام منقطع کیا جا چکا ہے جس سے آپریشن کی تفصیلات حاصل کرنے میں دشواری کا سامنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ریاست “مارو اور پھینک دو”کی پالیسی میں شدت لاتے ہوئے اپنی حراست میں موجود بلوچ فرزندان کو شہید کرکے سلسلہ وار ان کی لاشیں ویرانوں میں پھینک رہی ہے گذشتہ ایک ہفتے کے دوران آواران و مشکے میں 4مغوی بلوچ فرزندان کی مسخ شدہ لاشوں کی برآمدگی اس سلسلے کی ایک کڑی ہیاس کے علاوہ آواران و مشکے اور جھاؤ میں بھی پچھلے کئی دنوں سے آپریشن جاری ہے جھاؤ کے علاقے کوہڑو سے دو بلوچ فرزندان محمد بخش اور سبزل کو فورسز نے اغواء کرکے اپنی کیمپ منتقل کیا ۔بی این ایف کے ترجمان نے مزید کہا کہ 28مئی 1998آج سے 18سال پہلے بلوچستان کا سینہ چاک کرکے چاغی میں ریاست یکے بعد دیگر چھ ایٹمی دھماکے کیے۔ بلوچستان پر جبری قبضے کے بعد ریاست بلوچستان کو اپنا مقبوضہ خطہ سمجھ کر بلوچ عوام کی مرضی کے برعکس بلوچستان کے تمام مالکانہ حقوق جبراََ حاصل کررہا ہے جبکہ وقتاََ فوقتاََ جدید ہتھیاروں کے تجربے کے لئے ریاست ہمیشہ بلوچستان کا ہی انتخاب کرتا آرہا ہے۔انہوں نے کہا کہ بلوچ عوام سے کوئی ہمدردی نہیں بلکہ اسے بلوچ جغرافیہ اور اس میں موجود وسائل سے دلچسپی ہے قابض چاہے دنیا کے کسی حصے کا بھی ہو وہ مقبوضہ خطے کے عوام کو اسی طرح پسماندہ رکھتی ہے جس طرح کہ ریاست بلوچ عوام کو پسماندہ رکھے ہوئے ہے۔ لیکن ریاست غیر انسانی اعمال میں ایک قدم آگے جاکر بلوچ سرزمین کو بغیر حفاظتی انتظامات کے ایٹمی دھماکہ کرکے سینہ چاک کر دیا۔مرکزی ترجمان نے کہاکہ حفاظت کے بغیر کیے جانے والی دھماکوں کے نتیجے میں رخشان، بالخصوص چاغی میں انسانی و جنگلی حیات پر انتہائی منفی اثرات پڑے ہیں۔ ماہرین کے مطابق دھماکوں کے نتیجے میں پیدا ہونے والی منفی شعاعوں کی وجہ سے موسمی توازن انتہائی حد تک بگڑ گیا جس سے مقامی لوگوں کی معاش کا واحد ذریعہ مالداری بھی ختم ہوگیابارشیں نہ ہونے اور موسمی شدت کی وجہ سے جنگلی حیات اپنا وجود برقرار نہیں رکھ پائے، جبکہ علاقے میں زیر زمین پانی بھی انتہائی گہرا ہوگیا۔ مختلف ممالک کی این جی اوز نے چاغی میں پائے جانے والی بیماریوں کو انہی دھماکوں کی وجہ قرار دے کر الزام عائد کیا تھا کہ فورسز نے حفاظتی انتظامات کو بالائے طاق رکھ کر دھماکہ کرکے لوگوں کی زندگیوں کو ہمیشہ کے لئے عذاب میں مبتلا کیا ہے۔انہوں نے کہا کہ دنیا میں ایٹمی ہتھیاروں کی روک تھام اور ان کی نقصانات پر نظر رکھنے والے ادارے بلوچستان میں اپنی تحقیقاتی ٹیم بھیج کر یہاں پر انسانی زندگیوں پر ہونے والی اثرات پر رپورٹ مرتب کریں اور ریاست کو اس غیر ذمہ دارانہ تجربے پر قانون کے کٹہرے میں لائیں ۔ ترجمان نے بلوچ عوام ، تاجر برادری اور ٹرانسپورٹرز سے اپیل کی کہ وہ ان غیر انسانی اعمال کے خلاف ہونے والی احتجاج کو کامیاب بنا کر مظالم کو دنیا کے سامنے آشکار کریں۔اسی دن سوشل میڈیا میں #NukeAftermathInBalochistan کے ہیشٹیگ سے ایک کیمپین چلائی جائیگی۔