کوئٹہ : بلوچ ہیومین رائٹس آرگنائزیشن کے ترجمان نے رواں ہفتے بلوچستان کے مختلف علاقوں سے لاپتہ نوجوانوں کی مسخ شدہ لاشوں کی برآمدگی پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بلوچ نوجوانوں کی حراستی قتل کا شدت سے جاری رہنا انتہائی پریشان کن ہے۔ انہوں نے کہا کہ سابقہ دور حکومت میں لاپتہ افراد کی مسخ شدہ لاشوں کی برآمدگی کا جو سلسلہ شروع ہوا تھا، وہ تسلسل کے ساتھ جاری ہے۔ گزشتہ دنوں مشکے، آواران اور بلوچستان کے دیگر علاقوں میں متعدد لاشوں کی برآمدگی اس بات کا ثبوت ہے کہ بلوچستان میں عدالتی کاروائیوں و بغیر مقدمات کے گرفتار ہونے والے نوجوانوں کی مسخ شدہ لاشیں پھینکنے کی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں لائی گئی ہے۔ 27فروری کو مشکے میں اپنے گھروں سے اغواء ہونے والے مجاہد اور سرور ولد حسو، جبکہ آواران سے گزشتہ سال کی ستمبر کو اغواء ہونے والے اشرف اور صمد بلوچ کی لاشیں فورسز نے مقامی انتظامیہ کے حوالے کیں، ان مغویوں کو فورسز نے لوگوں کے سامنے سے اغواء کیا تھا۔لوگوں کو اُٹھا کر تشدد کا نشانہ بنانا و بعد میں ان کی مسخ شدہ لاشیں پھینکنا بلوچستان میں لوگوں میں بے یقینی و خوف و حراس پھیلا رہے ہیں۔ بھرے بازاروں یا گھروں سے لوگوں کو اُٹھانے کے بعد فورسز مغویوں کے اغواء سے انکاری ہوجاتے ہیں، جبکہ ایف آئی آر کرنے کی صورت میں متاثرہ خاندان کے لوگوں کو بھی اغواء و قتل کی دھمکیاں ملتی ہیں۔ اس طرح کی کاروائیاں بلوچستان میں انسانی حقوق کی صورت حال کو انتہائی پیچیدہ بنا چکے ہیں۔بلوچستان میں ریاستی عدالتیں، سیاسی حکومتیں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں روکھنے اور عام لوگوں کو تحفظ فراہم کرنے کی اپنی زمہ داریوں سے غیر اعلانیہ کنارہ کش ہو چکے ہیں۔جس کی وجہ سے فورسز طاقت کے استعمال میں خود کو مکمل آزاد تصور کرتے ہیں۔بی ایچ آر او کے ترجمان نے کہا کہ شدت پسندی کے خلاف آپریشن کے نام پر نہتے لوگوں کا اغواء، گھروں میں لوٹ مار و نظر آتش کرنا، اور قانونی کاروائیوں کے بغیر لاپتہ لوگوں کو حراستی قتل انسانی حقوق و جنگی قوانین کی سنگین خلاف ورزیاں ہیں۔