|

وقتِ اشاعت :   May 23 – 2016

کوئٹہ: بلوچ نیشنل فرنٹ کے مرکزی ترجمان نے کہا کہ گْوادر اور دشت کے کئی علاقے چھ دن سے فورسز کے محاصرے میں ہیں ۔ سائجی کی پہاڑیوں اور دشت کے کئی علاقوں کے داخلی و خارجی راستے سیل کئے گئے ہیں ۔ جس سے علاقہ مکین شدید مشکلات سے دوچار ہیں۔ سائجی میں گن شپ ہیلی کاپٹروں سے بمباری اور شیلنگ بھی جاری ہے۔ جس سے مال مویشیوں سمیت انسانی جانوں کے ضیاع کا خدشہ ہے، مگر محاصرے کی وجہ تفصیلات تک رسائی ممکن نہیں ۔ اس سے پہلے بھی ان علاقوں میں آپریشن کرکے فورسز نے کئی بلوچوں کو شہیدو اغوا کیا ہے۔ ساتھ ہی علاقے میں موجود پانی کے ذرائع چشموں میں کیمیکل ڈال کر زہر آلود بنایا گیا تھا۔ جو بلوچ نسل کشی میں کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کے زمرے میں آتا ہے۔ جس سے جنگلی و حیوانی حیات کو بھی شدید نقصان پہنچا ہے۔ عالمی برادری کے جانب سے بنگلہ دیش میں نسل کشی کیلئے پاکستان کو سزا سے مستثنیٰ قرار دینے سے فائدہ اُٹھا کر پاکستان بلوچستان میں ایک اور نسل کشی میں مصروف ہے۔ ترجمان نے کہا کہ گْوادر کے تحفظ اور چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبے کے نام پر ادارے بلوچستان میں غیر انسانی سلوک روا رکھے ہوئے ہیں ۔ چین کے ساتھ معاہدات کے بعد آپریشنوں میں نہایت تیزی لائی گئی ہے۔ ان کارروائیوں میں چین برابر شریک اور جرم کا مرتکب ہے۔ بلوچ تحریک آزادی کو کچلنے کیلئے چینی وسائل پاکستان کو توانائی دے رہے ہیں ۔ جس کے بعد چین بلوچستان کے ساحل کو کنٹرول کرکے یہاں کئی نیول بیس بنا کر خطے میں بادشاہی کرنا چاہتا ہے۔ مگر بلوچ قوم کی مرضی و منشا کے بغیر کوئی بھی منصوبہ پایہ تکمیل تک نہیں پہنچ سکتا۔ ترجمان نے کہا کہ دشت و سائجی آپریشن انہی کارروائیوں کا تسلسل ہیں جس کے تحت سامی، شہرک ، شاپک و بالگتر سمیت کئی علاقوں میں آپریشن کے ذریعے لوگوں کو زبردستی نقل مکانی پر مجبور کیا گیا۔ جہاں سے کئی ہزار خاندان نقل مکانی کرکے در بدر کی زندگی گزار رہے ہیں ۔ جو انسانیت کے خلاف ایک سنگین جرم ہے۔ اب یہی عمل دشت سائجی و گرد و نواع میں دُہرایا جارہا ہے۔ کیونکہ یہ علاقے گْوادر اور اقتصادی رہداری منصوبے سے متصل ہیں ۔ چھٹے دن جاری آپریشن میں فورسز نے گھروں میں گھس لوگوں کے اشیائے خوراک اور مشکیزوں کے پانی اُٹھا کر لے گئے ہیں ، دوسری طرف تمام راستے سیل کر دئیے گئے ہیں ۔ شیلنگ و بمباری کے ساتھ ساتھ بلوچ فرزندوں کو بھوک و پیاس سے بھی مارا جا رہا ہے۔ اقوام متحدہ اور عالمی ادارے نوٹس لیں ۔