کر اچی : بی ایس او آزاد کے رہنماؤں نے کراچی پریس کلب میں گذشتہ آٹھ دنوں سے جاری دشت و اس کے ملحقہ علاقوں میں فورسز کاروائیوں اور آواران و مشکے میں مسخ شدہ لاشوں کی برآمدگی کے حوالے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں ایک دہائی سے زائد کے عرصے سے فورسز آپریشن مختلف شکلوں میں تسلسل کے ساتھ جاری ہیں۔ دوران آپریشن سیاسی کارکنوں، نہتے عوام، حتیٰ کہ خواتین و بچیاں بھی تسلسل کے ساتھ متاثر ہورہی ہیں۔بی ایس او کے رہنماؤں نے کہاکہ بلوچستان میں چائنا کی سرمایہ کاریوں کی باقاعدہ اعلان و معاہدات پر دستخط کے بعد ان کاروائیو ں میں روزانہ کی بنیاد پر شدت لایا جارہا ہے۔ مسخ شدہ لاشوں کی برآمدگی کا جو سلسلہ 2009کی آخر کو شروع ہوا تھا، وہ آج بھی شدت کے ساتھ جاری ہے۔ رواں مہینے کی صرف ایک ہفتے کے دوران آواران ضلع کے علاقے مشکے اور آواران سے چھ ایسی لاشیں برآمد ہوئیں جنہیں فورسز نے مہینوں پہلے اغواء کیا تھا۔ ان مقتولوں کی وابستگی کسی تنظیم و گروہ سے بھی نہ تھی۔ مشکے سے برآمد ہونے والی لاشوں میں سرور ولد حسو اور مجاہد بلوچ شامل تھے، جنہیں 27فروری کو فورسز نے ان کے گھروں سے اغوا کیا تھا۔جبکہ آواران سے برآمد ہونے والی لاشوں کی شناخت اشرف ولد یار محمد ،صمد ولد سلیمان ، ریاض ولد غوث کے نام سے مقامی انتظامیہ نے کی۔ جبکہ کل برآمد ہونے والی لاشوں میں سے ایک کی شناخت نہ ہو سکی، شناخت ہونے والے مقتولوں میں ریاض کو اسی مہینے کی 22تاریخ کو فورسز نے آواران سے اغواء کیا تھا، جبکہ باقی چاروں کوگزشتہ سال کی 30ستمبر کو آواران ہی سے فورسز نے گرفتاری کے بعد لاپتہ کیا تھا۔انہوں نے کہا کہ ماورائے آئین و قانون قتل و لوگوں کے اغواء کے واقعات روز بہ روز شدت اختیار کررہے ہیں جو کہ بلوچ عوام کے لئے باعث پریشانی ہیں۔ بلوچستان کے ساحلی علاقوں سے ملحقہ علاقے دشت، کلانچ سمیت مختلف علاقے پچھلے ایک ہفتے سے مکمل محاصرے میں ہیں۔ ان علاقوں کی داخلی و خارجی راستوں کی ناکہ بندی کے ساتھ ساتھ فضائی فورسزبھی ان علاقوں میں شیلنگ کررہی ہیں۔ جس سے نہتے لوگوں کی ہلاکت و زخمی ہونے کا خدشہ ہے۔ راستوں کی ناکہ بندی کی وجہ سے علاقے میں اشیائے خورد و نوش کی قلت بھی پیدا ہورہی ہے۔ ا س کے علاوہ فورسز کے اہلکار محاصرے میں موجود علاقوں سے درجنوں لوگوں کو اغواء کرکے لاپتہ کر چکے ہیں انہوں نے مذید کہا کہ یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ بلوچستان عملاََ ایک جنگ زدہ خطہ بن چکا ہے۔ کسی جنگ زدہ خطے میں عام لوگوں کا متاثر ہونا ایک فطری عمل ہے، لیکن بلوچستان میں طاقت کا بلا احتیاط و بلا تفریق استعمال کم و بیش بلوچستان بھر کی آبادی کو یکساں متاثر کر چکی ہے۔ ان متاثرین کی مشکلات کا اندازہ میڈیا ادارے و انسانء حقوق کے ادارے اپنے دفاتر میں بیٹھ کر نہیں لگا سکتا، بلکہ ایک زمہ دار شعبے سے تعلق کی حیثیت سے سب سے زیادہ زمہ داری انہی پر عائد ہوتی ہے کہ اپنے نمائندے بلوچستان میں بھیج کر صورت حال کا جائزہ لیں۔ وہاں بچوں کی تعلیم، جنگ سے متاثر ہو کر نکل مکانی کرنے والے خاندانوں کی مشکلات ، مسخ شدہ لاشوں کی برآمدگی ، لاپتہ افراد کے خاندان کے مسائل اور روز مرہ ضروریات کی عدم فراہمی جیسے مشکلات عام لوگوں کی روز مرہ زندگی کا حصہ بن چکے ہیں۔رہنماؤں نے کہا کہ بی ایس او آزادومہذب ممالک، میڈیا و سول سوسائٹی کی تنظیموں سے اپیل کرتی ہے کہ بلوچ مسئلے کے پرامن حل کے لئے وہ اپنا معتبر کردار ادا کریں۔کیونکہ بلوچ آزادی کی تحریک سیاسی تحریک ہے جس کے مقاصد بھی سیاسی ہیں۔ لیکن افسوس کہ اقوام متحدہ و دیگر ادارے اس سیاسی مسئلے کو حل کرنے میں کسی قسم کا توجہ نہیں دے رہے ہیں۔ یہ عدم توجہی نہ صرف بلوچ لاپتہ افراد و مقتولوں کے تعداد میں اضافے کا باعث بن رہی ہے، بلکہ ان معتبر اداروں پر بلوچ عوام کے اعتماد کو بھی ٹھیس پہنچا رہی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ بلوچ مسئلے کے پرامن حل کے لئے اقوام متحدہ و دیگر ادارے اپنا کردار ادا کریں۔