وزیر داخلہ کو اس وقت زبردست شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا جب طالبان کی شوریٰ نے یہ تصدیق کی کہ ملا اختر منصور احمد وال بلوچستان میں ایک امریکی ڈرون حملے میں مارے گئے ۔ا س سے قبل کی ایک پریس کانفرنس میں انہوں نے شک کا اظہار کیا تھا کہ یہ کوئی بین الاقوامی سازش ہے کہ ملا اخترر منصور کا جعلی پاسپورٹ اور شناختی کارڈ حادثے کے مقام پر پھینک دیا گیا تھا ،وہ ڈی این اے ٹیسٹ سے قبل اس بات پر تیارہی نہیں تھے کہ ملا اختر منصور حکومت پاکستان کے مہمان خاص کو امریکی حکومت نے پاکستان کی سرزمین پر ڈرون کے ذریعے ہلاک کیا ہے ۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ملااختر منصور کا شناختی کارڈ بلاک کردیا گیا اور پاسپورٹ کی مدت ختم ہوچکی شاید بعداز مرگ، وزیر داخلہ کا اشارہ تھا۔ یہ بات ڈھکی چھپی نہیں کہ حکومت پاکستان نے طالبان کی حکومت کی کابل سے برطرفی پر اپنے سخت ناراضگی کا اظہار کیا تھا اور اس کے جواب میں طالبان اور ان کے تمام جنگجوؤں کے لئے پاکستانی سرحدیں کھول دیں تھیں ۔ یہی نہیں بلکہ بلوچستان اور سابقہ صوبہ سرحد میں طالبان کے اساتذہ کی حکومت قائم کی گئی ۔بلوچستان اسمبلی میں طالبان کے اساتذہ کو انعام کے طورپر 19سیٹیں دی گئیں اور اس کو دوسری سب سے بڑی پارٹی بنا کر بلوچستان کے عوام پر 12سالوں کے لئے مسلط کردیا گیا ۔2002کے دوران لاکھوں افغان باشندوں خصوصاً طالبان کو پاکستانی شناختی کارڈ اورپاسپورٹ جاری کیے گئے اور یہ سب کچھ صدر پرویزمشرف کے احکامات کے تحت کیا گیا۔ ویسے بھی ریاست پاکستان نے اپنی سخت ناراضگی کا اظہار کیا تھا جب افغانستان میں بادشاہت کاخاتمہ کیا گیا تھا پاکستانی حکمران اور اشرافیہ شاہ پرست تھے انہوں نے انقلاب دشمن قوتوں کو پاکستان بلایا اور ان کو پناہ دی۔ بھٹو صاحب بحیثیت وزیراعظم پاکستان بہت بڑے شاہ پرست ثابت ہوئے تھے حکمت یار سے لے کر احمد شاہ مسعود تک کو پاکستان کا مہمان بنایا گیا اور افغان حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کی گئی۔ یہ سلسلہ طویل عرصے تک چلتا رہا یہاں تک کہ 1988ء میں جلال آباد اور اس کے گرد نواح پر قبضہ کرکے افغانستان کی متوازی حکومت بنانے کی کوشش کی گئی ۔ ایسے منصوبوں کے سب سے بڑے مخالفین میں میر غوث بزنجو اور ولی خان شامل تھے ان دونوں کو 1988ء کے انتخابات میں ریاستی پالیسی کے تحت شکست دی گئی کیونکہ ان کی پارلیمان میں موجودگی سے افغانستان کی متوازی حکومت قائم نہیں ہوسکتی تھی ۔ معاملہ یہی ختم نہیں ہوا ،ریاست پاکستان اور اس کے ادارے خارجہ پالیسی کے تحت افغان شہریوں کی نہ صرف ہمت افزائی کرتے تھے بلکہ ان کو تمام سہولیات فراہم کرتے تھے جن کا مقصد ان کو طاقتور بنانا تھا ۔ اس لئے قبائلی علاقوں میں خان کے بجائے بکری چور کو زیادہ طاقتور بنایا گیا اور اسکو مجاہد کا نام بھی دیا گیاحالانکہ عمل اور کردار کے لحاظ سے وہ مجاہد نہیں تھا وہ ایک کرائے کا سپاہی تھا جس کو خان پر مسلط کیا گیا ۔ اسی یلغار کے بعد جنرل ضیاء الحق نے غوث بخش بزنجو سے ملاقات کی خواہش ظاہر کی اور ان سے مشورہ کرنا چاہا ۔ غوث بخش بزنجو نے یہ مشورہ دیا کہ ا ن کرائے کے لوگوں کو اسلحہ اور رقم نہ دو جب کوئی دوسرا ملک ان کو زیادہ رقم فراہم کرے گا تو وہ بندوق کا رخ اسلام آباد کی طرف پھیر دیں گے۔ ان کا تجزیہ صحیح ثابت ہوا آج طالبان۔۔۔ پاکستان ، اس کی حکومت اور عوام پر حملہ آور ہیں ۔ دوسری جانب مقتدرہ کا ایک موثر طبقہ ان افغانوں‘‘‘ قومی اثاثہ ‘‘ سمجھتا ہے اور ان کو اپنے مقاصد کیلئے استعمال کرنا چاہتا ہے اس لئے چاغی ، واشک اور نوشکی کے گرد نواح میں ہزاروں کی تعداد افغانوں کو آباد کیا گیا ان کو اجازت دی گئی کہ وہ منشیات کا کاروبار کریں یا اسمگلنگ کریں ۔ملا اختر منصور کے معاملے میں یہ ثابت ہوگیا کہ ان کو پاکستانی شناختی کارڈ ریاست اور اداروں کی مرضی سے جاری ہوا۔ اب وفاقی حکومت جاری شدہ تمام شناختی کارڈوں کی تصدیق کرنا چاہتی ہے جس پر سالوں لگ جائیں گے، لاکھوں پاکستانی پریشان ہوں گے۔ اس کا آسان حل یہ ہے کہ تمام غیر ملکیوں کو فوری طورپر گرفتار کیا جائے، اگر ان کے پاس شناختی کارڈ مل جائے تو صرف اس کی تحقیقات کی جائے نہ کہ مستندپاکستانیوں کی،نیز خصوصاً سندھی ، بلو چ،پنجابی ، سرائیکی باشندوں کو استثنیٰ دیا جائے ۔ سب سے پہلے افغان ، بنگالی ، برمی باشندوں کو گرفتار کرکے ملک بدر کیاجائے اور بعد میں بھارتیوں کا پتہ لگایا جائے کہ کتنے غیر قانونی تارکین وطن یہاں آبادہیں ۔
غیر ملکیوں کو گرفتار کریں
وقتِ اشاعت : May 27 – 2016