کوئٹہ: بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ رکن صوبائی اسمبلی سردار اختر جان مینگل نے کہا ہے کہ پناہ گزین سے مہاجرین اور مہاجرین سے مجاہدین کا سفر مکمل ہونے پر حکمرانوں کو یہ احساس ہوا ہے کہ افغان مہاجرین کو ان کے وطن واپس بھجوانا ہو گا حکمرانوں نے کئی بار ڈالر کے عیوض ملکی سالمیت کو داؤ پر لگایا ڈرون حملے اب اس داؤ پر لگی سالمیت کو اور کتنا نقصان پہنچائیں گے جب تک ’’گیو مور‘‘ کی پالیسی جاری رہے گی ’’ڈومور‘‘ کرنا پڑے گا ان خیالات کا اظہار انہوں نے ’’آن لائن‘‘ سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہمارا روز اول سے واقف موقف رہا ہے کہ مہاجرین بلوچستان کی معیشت پر بوجھ ہیں اور انہیں باعزت طریقے سے ان کے وطن واپس بھجوانا چاہئے کیونکہ ان کی موجودگی یہاں آباد اقوام کو اقلیت میں تبدیل کرنے کا باعث بن رہی ہے مگر ہمارے اس مطالبے پر حکمرانوں کے کان میں جوں تک نہیں رینگی مگر آج جب یہ لوگ پناہ گزین سے مہاجرین اور مہاجرین سے مجاہدین بن گئے تو حکمرانوں خواب غفلت سے بیدار ہوئے ہیں اگر پہلے دن سے ہی انہیں پابند کیا جاتا اور ان مہاجرین کو کیمپوں تک محدود رکھا جاتا تو آج ہمیں یہ حالات دیکھنے نہ پڑتے کیونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ بلوچستان کی جغرافیائی صورتحال مہاجرین کی موجودگی کے باعث شدید متاثر ہو رہی ہے دوسری جانب یہ لوگ افغانستان کے جن علاقوں سے ہجرت کرکے یہاں آئے ہیں ان علاقوں میں آج بلوچستان سے زیادہ امن اور روزگار کے مواقع ہیں تو پھر انہیں کیا ضرورت ہے کہ یہ دیار غیر میں بیٹھے ہوئے ہیں یہاں ہونیوالی مردم شماری بھی مہاجرین کی موجودگی کے باعث متاثر ہوئی مگر پھر بھی اس جانب توجہ نہیں دی گئی تاہم اب بھی ہم سمجھتے ہیں کہ دیر سے ہی سہی مگر اہل اقتدار کو ہوش تو آیا جتنی جلدی ہوسکتا ہے انہیں ان کے ملک باعزت طریقے سے واپس بھجوادیا جائے اور ساتھ ہی ساتھ ان لوگوں کیخلاف کارروائی کی جائے جو افغان مہاجرین کے شناختی کارڈ بنوانے میں ملوث رہے ہوں وہ چاہئے بیوروکریٹ ہوں یا سیاستدان کسی کو بھی اس سے مبرا نہیں کیاجانا چاہئے انہوں نے کہا کہ ڈرون حملے کو ملکی سالمیت پر حملہ کہنے والے حکمرانوں نے خود کئی بار ڈالر کے عیوض اس ملک کی سالمیت کو داؤ پر لگایا ہے اور جس ملک کی سالمیت اتنی بار داؤ پر لگ چکی ہو یہ ڈرون حملے اسے کیا نقصان پہنچائیں گے تاہم اتنا ضرور ہے اب ہمیں اچھے اور برے دہشت گردکا فرق ختم کرتے ہوئے ہر اس شخص کیخلاف کارروائی کرنا چاہئے جو امن کو برباد کرنا چاہتے ہیں انہوں نے کہاکہ امریکہ اس وقت تک ’ڈومور‘‘کی پالیسی جاری رکھے گا جب تک ’’گیومور‘‘کی پالیسی برقرار رہے گی بدقسمتی سے یہاں کوئی خارجہ پالیسی ہی نہیں جس کی بنیاد پر بات کی جائے ہم سمجھتے ہیں کہ ’’گیومور‘‘ پالیسی کو ترک کرکے ہی ہم ’’ڈومور‘‘پالیسی پر بات کر سکیں۔