لندن: آج کے جدید دور میں بھی دنیا کے 4 کروڑ 58 لاکھ افراد غلامی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
دی واک فری فاؤنڈیشن گلوبل سلیوری انڈیکس کے مطابق ہندوستان میں سب سے زیادہ ایک کروڑ 83 لاکھ 50 ہزار افراد غلامی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، جبکہ اس فہرست میں چین 33 لاکھ 90 ہزار اور پاکستان 21 لاکھ 30 ہزار کے ساتھ دوسرے اور تیسرے نمبر پر موجود ہے۔
البتہ فی کس شرح کے مطابق شمالی کوریا میں 4.37 فیصد غلاموں جیسی زندگی گزار رہے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق 167 ممالک میں زیادہ تر افراد قرض کی عدم ادائیگی، جبر ی مشقت، معاشی و جنسی استحصال اورجبری شادی کی وجہ سے ظلم و ستم کا نشانہ بن رہے ہیں۔
اس حوالے سے واک فری فاؤنڈیشن کے چیئرمین اینڈریو فوریسٹ کا کہنا ہے کہ رواں سال غلاموں کی تعداد میں نمایاں کمی آئی ہے، اب دنیا بھر میں غلاموں کی تعداد 4 کروڑ 58 لاکھ ہے جبکہ 2014 میں غلاموں کی تعداد 10 گنا زیادہ تھی۔
انہوں نے مزید کہا کہ اگر 2015 اور 2016 کی جانب نظر دوڑائیں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ دنیا میں شعور بیدار ہورہا ہے جس کی وجہ سے ہندوستان میں غلاموں کو آزاد کرنے کے حوالے سے مہم شروع ہوچکی ہے۔ میرے خیال میں ایک یا 2 سال میں ان کی تعداد میں مزید کمی آئے گی۔
فوریسٹ کا کہنا تھا کہ ہمیں اس حوالے سے برطانوی حکومت کے قانون پر عمل پیرا ہونا چاہیے، برطانیہ نے ماڈرن سلیوری ( جدید غلامی) کے خلاف سخت قانون نافذ کیے ہیں جس میں غلام رکھنے کے جرم میں قید و جرمانے کی سزا رکھی گئی ہے۔
جدید غلامی سے مراد کسی بھی شخص پر جبر، تشدد، دھوکا اور اس پر اختیارات کا ناجائز استعمال کرنا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ بعض افراد کو قرض کی عدم ادائیگی کی بناء پر تاحیات غلام بنادیا جاتا ہے اور ان پر تشدد کرنے کے ساتھ ساتھ ان سے جانوروں والا سلوک کیا جاتا ہے۔
دنیا کے 124 ممالک میں اقوام متحدہ ٹریفکنگ پروٹوکول کے تحت انسانی اسمگلنگ کو جرم قرار دیا جاچکا ہے۔ 96 ممالک نے حکومتی کارروائیوں کو موثر بنانے کے لیے نیشنل ایکشن پلان بھی بنائے، تاہم فوریسٹ کا کہنا تھا کہ انسانی اسمگلنگ کو مکمل طور پر روکنے کے لیے سخت اقدامات کرنے ہوں گے۔
اگر اعداد و شمار کی بات کی جائے تو ایشائی ممالک غلاموں کی تعداد کے لحاظ سے ٹاپ 5 میں آتے ہیں، جن میں ہندوستان (ایک کروڑ 83 لاکھ 50 ہزار)، چین (33 لاکھ 90 ہزار)، پاکستان (21 لاکھ 30 ہزار )، بنگلہ دیش (15 لاکھ 30 ہزار ) اور ازبکستان (12 لاکھ 30 ہزار) شامل ہیں۔