|

وقتِ اشاعت :   June 5 – 2016

کوئٹہ: آج پوری دنیامیں ماحولیات کا عالمی دن منایا جارہا ہے، صنعتی انقلاب کے بعد ماحولیاتی اور موسمی تبدیلیوں نے پوری دنیا کو اپنے لپیٹ میں لے لیا ہے، ماہرین ماحولیات اور ارضیات نے انکشاف کیا ہے کہ موسمی اور ماحولیاتی تبدیلیوں سے بلوچستان کا 70فیصد حصہ بری طرح متاثر ہورہا ہے۔ حیوانات اور زراعت کے شعبے تباہ ہورہے ہیں۔ پیداوار میں کمی کے باعث لوگوں کی بڑی تعداد بے روزگار ہورہی ہے۔ بروقت اقدامات نہ کئے گئے تو انسانی المیہ جنم لے سکتا ہے۔ ماہرین ماحولیات اور ارضیات نے اپنی تحقیق میں بتایا ہے کہ بلوچستان قدرتی آفات ، موسمی اور ماحولیاتی تبدیلیوں کے یکساں خطرات سے دو چار ہیں۔ گزشتہ نصف صدی میں بیشتر عرصہ پورا صوبہ خشک سالی کی لپیٹ میں رہا اور اس وقت بھی صوبے کے بالائی، میدانی،صحرائی اور ساحلی علاقوں میں بارشوں کی کمی اور درجہ حرارت بڑھنے کی وجہ سے پانی کی شدید قلت ہیں۔ صوبے میں خشک سالی کے اثرات پر تحقیق کرنے والے بلوچستان یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائسنز ، انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی (بیوٹمز) کے شعبہ ماحولیات کے پروفیسر ڈاکٹر مقصود نے بتایا ہے کہ ہم نے بلوچستان کو بالائی، میدانی، صحرائی اور ساحلی یعنی چار اقسام کے علاقوں میں تقسیم کیا اور پھر ہر علاقے کے ایک ایک ضلع پر تحقیق کرکے اس کی بنیاد پر یہ نتائج اخذ کئے ہیں کہ صوبے کے چاروں اقسام کے علاقے خشک سالی سے چالیس سے ستر فیصد متاثر ہیں۔ زرعی شعبہ ستر فیصد متاثر ہوا ہے جبکہ بڑے جانوروں کی پیداوار میں چالیس فیصد ، چھوٹے جانوروں کی پیداوار میں پینتیس فیصد تک کمی آئی ہے۔ نہ صرف پیداوار میں کمی بلکہ معیار میں بھی کمی آئی ہے۔ پھل اور فصلوں کا معیار کم تر ہوا ہے جبکہ مناسب خوراک نہ ملنے کی وجہ سے جانور لاغر ہوتے جارہے ہیں۔ انہوں نے انکشاف کیاکہ گزشتہ پچاس سالوں کے اعداد و شمار کا تجزیہ کرنے کے بعد یہ معلوم ہوا ہے کہ بلوچستان میں نصف صدی کے دوران 28 سال خشک سالی رہی جبکہ صرف دو سال زیادہ بارشیں ہوئی ہیں۔ جبکہ 1878سے اب تک کے دور کا تجزیہ کرنے سے معلوم ہوا ہے کہ گزشتہ صدی بھی بلوچستان اور یہ خطہ خشک سالی کی لپیٹ میں رہا ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر مقصود نے کہا کہ بلوچستان اس وقت بھی خشک سالی سے دوچار ہیں اور آئندہ بھی یہی صورتحال رہے گی اس لئے یہاں کے لوگوں کو اب خشک سالی کے ساتھ رہنا سیکھنا ہوگا اور مستقل کیلئے منصوبہ بندی کرنا ہوگی۔ ماحولیاتی تبدیلیوں سے متعلق حکومتی اقدامات سے متعلق سوال پر ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے اب جاکر اس طرف توجہ دینا شروع کی ہے۔ پہلے حکومت اس مسئلے کو صرف ایک زاویے سے دیکھتی تھی اور وہ زیادہ سے زیادہ ڈیم بنانے پر توجہ دیتی تھی۔ اب اس نے باقی پہلوؤں کی جانب بھی دیکھنا شروع کیا ہے۔ ہمیں خشک سالی کے اثرات کی کمی کیلئے جدید ٹیکنالوجی اور پانی کے کم سے کم استعمال کے طریقوں کو اپنانا ہوگا۔ زیر زمین پانی پر انحصار کم سے کم کرنا ہوگا کیونکہ اس کی وجہ سے پانی کی سطح تیزی سے گررہی ہے۔ پشین کے ایک علاقے میں 10فٹ ہفتہ وار پانی کی سطح نیچے گر رہی ہے جو انتہائی خطرناک ہے۔ ماہرین کے مطابق موسمیاتی تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ بلوچستان قدرتی آفات کے خطرات سے بھی دوچار ہیں۔ بلوچستان یونیورسٹی میں قدرتی آفات کے خطرات سے متعلق اس سال قائم ہونے والے ڈیپارٹمنٹ آف ڈیزاسسٹرمینجمنٹ اینڈ ڈویلپمنٹ اسٹیڈیز کے سربراہ ڈاکٹر عین الدین کہتے ہیں کہ بلوچستان کئی اقسام کے قدرتی آفات کے خطرات سے دو چار ہیں۔ کوئٹہ اور اس زون میں آنے والے علاقے زلزلے سے ، ساحلی علاقے سونامی کے خطرے سے دو چار ہیں۔ میدانی علاقے سیلاب سے تو کوئٹہ، قلات، مستونگ، پشین ، قلعہ عبداللہ اور قلعہ سیف اللہ جیسے بالائی اور خاران، نوشکی اور چاغی جیسے صحرائی علاقے خشک سالی کے خطرات سے دو چار ہیں۔ بلوچستان یونیورسٹی کے شعبہ ارضیات کے پروفیسر ڈاکٹر دین محمد کے مطابق کوئٹہ میں زیر زمین پانی بے دردی سے نکالا جارہا ہے جس کی وجہ سے کوئٹہ کی زمین سالانہ دس سینیٹی میٹر کی طرف سے نیچے دھنس رہی ہے اور اس کے نتیجے میں زلزلے کے خطرات بڑھ گئے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق گلوبل وارمنگ سے متاثرہ ممالک میں پاکستان چوتھے نمبر پر ہیں۔ قدرتی آفات سے نمٹنے کے صوبائی ادارے پی ڈی ایم اے کے ڈائریکٹر جنرل زاہد سلیم کہتے ہیں کہ بلوچستان میں موسمیاتی تبدیلیوں اور قدرتی آفات کے اثرات ملک کے باقی تمام حصوں کے مقابلے میں زیادہ ہیں۔ زاہد سلیم کے مطابق بلوچستان کی آبادی کا زیادہ تر حصہ دیہی ہونا، ،غربت میں اضافہ اور تعلیم میں کمی اس کی وجوہات ہیں۔ لوگوں کے پاس روزگار کے مواقع کم ہیں اور زیادہ تر کا انحصار زراعت پر ہیں۔ جب یہاں کوئی چھوٹی قدرتی آفت آتی ہے تو اس کے اثرات ملک کی باقی علاقوں کے مقابلے میں زیادہ ہوتے ہیں۔ پہلے آفات سے نمٹنے کیلئے پیشگی اقدامات پر توجہ دے رہے ہیں۔ اس سلسلے میں بلوچستان رسک ریڈکشن مینجمنٹ پلان پہلے ہی بن چکا ہے اب متعلقہ شعبوں کے ماہرین اور اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کے بعد اسے پالیسی کی شکل دینا چاہتے ہیں۔ محکمہ ترقی و منصوبہ بندی میں بیرونی امداد کے شعبے کے سربراہ مجیب الرحمان کہتے ہیں کہ گلوبل وارمنگ کے اثرات اب تیزی سے نمایاں ہورہے ہیں۔ پاکستان اس سے متاثر ہونے والا تیسرا ملک ہوگا اور سارا بلوچستان بھی اس کی لپیٹ میں آسکتا ہے۔ بلوچستان میں زراعت کے شعبے سے بڑی تعداد میں لوگ وابستہ ہیں۔ موسمیاتی تبدیلیوں اور آفات سے زراعت تیزی سے متاثر ہورہا ہے اور اس کے نتیجے میں لوگوں کی بڑی تعداد بے روزگار ہورہی ہے۔ یہی صورتحال رہی تو بلوچستان میں ایک بڑا بحران جنم لے سکتا ہے۔ بلوچستان میں77فیصد زراعت کا انحصار سیلابی پانی اور23فیصد زیر زمین پانی پر ہے ۔ جبکہ صرف1.38فیصد زرعی علاقوں کو دریائے سندھ سے پانی ملتا ہے ۔مجیب الرحمان نے بتایا کہ حکومت نے اب واٹر سیکٹر پر خصوصی توجہ دینا شروع کی ہے۔ سیلاب اور خشک سالی کے اثرات سے بھی نمٹنے کیلئے کوششیں کی جارہی ہیں۔ اس سلسلے میں ایک پالیسی بنائی جارہی ہے جو آئندہ دس سے پندرہ سالوں کے اقدامات پر مشتمل ہوگی۔ اس سلسلے میں مختلف منصوبوں کیلئے ہم نے ورلڈ بینک سے دو سو ملین ڈالر ، ایشیائی ترقیاتی بینک سے سو ملین ڈالر جبکہ وفاقی حکومت سے بھی سو ڈیمز کی تعمیر کیلئے رقم لے رہے ہیں۔ صوبائی حکومت بھی اس شعبے میں بڑے پیمانے پر رقم خرچک کرہی ہے۔ اب ہمارے پاس وقت کم ہے۔ گلوبل وارمنگ کے اثرات سے نمٹنے کیلئے ہمارے پاس زیادہ وقت نہیں۔ ہمیں ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کرنے ہوں گے۔ اگر بلوچستان میں زراعت کا شعبہ متاثر ہو اتو اس کے اثرات پورے صوبے پر مرتب ہوں گے۔