تہران: ایران کے جنوبی شہر شیراز میں درجنوں خواتین کا ’ریپ‘ کرنے والے 21 سالہ نوجوان کو پھانسی دے دی گئی۔
فرانس کے خبر رساں ایجنسی ’اے ایف پی‘ نے شیراز کے پروسیکیوٹر علی صالحی کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ امین ڈی نامی اس نوجوان کو اگست 2015 میں، ریپ کا شکار بننے والی ایک خاتون کی جانب سے دی جانے والی سی سی ٹی وی فوٹیج کی مدد سے گرفتار کیا گیا تھا، بعد ازاں ڈی این اے ، خون کے ٹیسٹ اور دیگر شواہد کی صورت میں اس کے خلاف ثبوت سامنے آئے۔
علی صالحی نے کہا کہ امین ڈی کو ’فساد پھیلانے‘ اور گھروں میں گھس کر خواتین کا ریپ کرکے شیراز میں بڑے پیمانے پر عدم تحفظ پھیلانے کے جرم کا مرتکب قرار دے کر پھانسی کی سزا سنائی گئی۔
ایران میں 1979 کے انقلاب کے بعد رائج ہونے والے اسلامی قوانین میں ’زمین پر فساد پھیلانا‘ سنگین جرم ہے، جس کے مرتکب افراد کی سزا موت ہے۔
امین ڈی کی گرفتاری کے بعد گزشتہ سال فارس صوبے کے پولیس سربراہ احمد گودارزی نے کہا تھا کہ ملزم کی ایک گھر میں چھوڑے جانے والے ٹراؤزر سے نشاندہی کی گئی۔
پولیس نے ملزم تک پہنچنے کے لیے ایک جیسے خاندانی نام والے 15 ہزار افراد پر اپنی تلاش مرکوز کی، بعد ازاں ڈی این اے ٹیسٹ سے اصل مجرم کی نشاندہی کی گئی تھی۔
پولیس کا کہنا تھا کہ اس 21 سالہ نوجوان کو دو سال قبل بھی گرفتار کیا گیا تھا، لیکن اس وقت اس کے خلاف صرف موبائل چوری کا مقدمہ درج تھا، اور جس خاتون نے مقدمہ درج کروایا تھا انہوں نے بے عزتی کے خوف کے باعث ملزم کے خلاف جنسی استحصال کے الزام کو مقدمے میں شامل نہیں کروایا، جس کے باعث امین ڈی کو جلد رہائی مل گئی تھی۔
امین ڈی کو ریپ اور قتل کے ایک اور مجرم کے ہمراہ پھانسی دی گئی۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کے اعداد و شمار کے مطابق 2015 میں ایران میں کم از کم 977 افراد کو پھانسی دی گئی، جن میں زیادہ تر منشیات اسمگلنگ کے ملزمان شامل ہیں اور یہ تعداد پاکستان اور سعودی عرب میں دی جانے والی پھانسیوں سے زیادہ ہے۔