13نومبر 2015 کو جمعے کے دن سٹیڈیم فرانس سے دو افراد نکلے۔ یہ دونوں فرانس ہی میں پیدا ہوئے تھے، دونوں ملک کی فٹبال ٹیموں کے مداح تھے، اور سٹیڈیم فرانس کو مقدس مقام سمجھتے تھے کہ یہ جدید اور کثیر ثقافتی فرانس کی بہترین نمائندگی کرتا ہے۔
پرتگالی شوفر مینوئل کولاکو ڈیاس نے شام کو سواریاں اٹھائیں جو فرانس کی ٹیم کی مداحوں پر مشتمل تھی۔ یہ انھیں نام سے جانتے تھے۔ وہ مینوئل کی نرم خوئی کو اور سفر کے دوران فٹبال کے بارے میں ان کی گفتگو پسند کرتے تھے۔ سکیورٹی گارڈ سلیم طورابالی پہلی بار سٹیڈیم آئے تھے۔ یہ ان کے آبائی ملک موریشس کے مقابلے میں خاصی سرد شام تھی، لیکن فرانس اور جرمن مداحوں کے درمیان زبردست رقابت، اور چہرے رنگے ہوئے بچوں کے چہروں نے سلیم کے اندر گرماہٹ بھر دی۔ انھوں نے اپنی بھاری جیکٹ کے اندر سے فون کی وائبریشن محسوس کی۔ انھوں نے دستانوں والے ہاتھ سے فون باہر نکالا۔ یہ ان کی 15 سالہ بیٹی یزا کا پیغام تھا۔ ’پاپا، شام کو اپنا خیال رکھنا۔ مجھے خدشہ ہے کہ کوئی بری بات ہونے والی ہے۔‘ سٹیڈیم فرانس پر مئی 1995 میں کام شروع ہوا تھا۔ 1950 کی دہائی میں مشہور فٹبالر زیدان کے والد اسماعیل زیدان اسی علاقے میں بطور مزدور کرتے تھے۔ اس وقت ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہو گا کہ ایک دن ان کا بیٹا اس سٹیڈیم میں قومی ہیرو بن کر اپنا جادو جگائے گا۔ سٹیڈیم کی تعمیر 31 مہینوں میں مکمل ہوئی۔ فٹبالر ژولیاں لورین کہتے ہیں کہ 1990 کی دہائی میں تارکینِ وطن کے لیے فرانسیسی معاشرے میں گھل مل جانا آسان نہیں تھا۔ ’حب الوطنی کی کمی تھی کیونکہ جب آپ کے والدین سپین، سنیگال، مالی، اٹلی، مشرقی یورپ سے ہوں تو آپ کے لیے فرانسیسی ہونا کیا معنی رکھتا ہے؟‘ 1998 کے ورلڈ کپ میں حصہ لینے والی فرانسیسی ٹیم میں کئی کھلاڑیوں کا تعلق تارکینِ وطن والے خاندانوں سے تھا۔ فرانس کی یہ ٹیم کو کوئی اہمیت نہیں دے رہا تھا۔ عالمی درجہ بندی میں اس کا نمبر 18 تھا اور وہ ٹورنامنٹ سے پہلے روس سے میچ ہار گئی تھی۔ اس تناظر میں کٹر بائیں بازو کی فرنٹ نیشنل پارٹی نے فرانسیسی ٹیم پر تنقید کرتے کہا کہ یہ ٹیم ’مصنوعی‘ ہے اور ’اصل فرانسیسی ٹیم نہیں ہے۔‘ یہی نہیں بلکہ ٹیم کے کوچ ژاکے کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ حالات یہاں تک پہنچے کہ پیرس میں قومی ٹیم کے خلاف پائے جانے والے احساساست کی وجہ سے پہلا میچ پیرس میں نہیں بلکہ مارسے میں رکھا گیا۔ فرانس نے اس میچ میں جنوبی افریقہ کو تین صفر سے ہرا دیا۔ سعودی عرب، ڈنمارک اور پیراگوئے کے خلاف فتوحات سے ٹیم ناک آؤٹ مرحلے تک پہنچ گئی۔ کوارٹر فائنل خاصا سنسنی خیز رہا۔ فرانس کے مقابلے پر تین بار کی عالمی چیمپیئن اٹلی تھی۔ 120 منٹ بنا گول بیت گئے اور بات پنلٹی شوٹ آؤٹ تک پہنچ گئی۔ فرانس چار تین سے جیت گیا۔ لورین کہتے ہیں: ’یہی فیصلہ کن موڑ تھا۔ اچانک لوگوں نے بھروسہ کرنا شروع کر دیا، نہ صرف ٹیم پر، بلکہ ملک پر، اور خود پر بھی۔ ملک یوں متحد ہو گیا جیسے کبھی کوئی اختلاف تھا ہی نہیں۔‘ ’ایسے لگا جیسے یہ ٹیم پورے ملک کی تعریف متعین کر رہی ہے۔ ان کا تعلق مختلف ملکوں سے ہے، میری اور آپ کی طرح، ہم سب کی طرح۔‘ خود ٹیم کو بھی احساس ہوا کہ وہ جیت سکتے ہیں۔ ٹیم کے ونگر تھیری ہینری کہتے ہیں: ’میرے خیال میں اس کی وجہ یہ تھی کہ فرانسیسی لوگوں کا ٹیم سے تعلق جڑ گیا تھا۔ کیونکہ ٹیم میں مختلف ثقافتوں سے آنے والے کھلاڑی موجود تھے، لیکن آپ جہاں سے بھی آئے ہوں، آپ دیکھ سکتے تھے کہ آپ ایک ٹیم کا حصہ ہیں۔‘ کروئیشیا کو سیمی فائنل میں دو ایک سے شکست ہوئی۔ اب فرانس کے سامنے ایک ہی رکاوٹ رہ گئی تھی: برازیل، جو نہ صرف دفاعی چیمپیئن تھا بلکہ دنیا کی نمبر ایک ٹیم بھی۔ اس نسل کے فرانسیسیوں کے لیے 1998 کا فائنل ان کی زندگیوں کے یادگار لمحے کی حیثیت رکھتا ہے۔ وہ لمحہ جب انفرادی زندگی کا تاریخ کے صفحۂ اول سے تصادم ہوتا ہے۔ کھلاڑی ونسٹ ڈولک کہتے ہیں: ’میرا خیال ہے کہ فرانس میں ہر کسی کو یاد ہے کہ وہ اس وقت کہاں تھا۔‘ فرانس کے رائٹ بیک للیئن تھرام کہتے ہیں: ’مجھے یاد ہے کہ جب ہم میدان میں پہنچے اور برازیلی کھلاڑیوں کو دیکھا تو ہمیں احساس ہوا کہ وہ کبھی بھی نہیں جیت سکتے، وہ صرف 11 ہیں اور ہم کروڑوں۔‘ یہ جولائی کا ایک گرم دن تھا، جس خوابوں کی طرح کی کوئی چیز تھی۔ زیدان لڑکپن میں سر سے فٹبال مارنا پسند نہیں کرتے تھے۔ اس دن انھوں نے سر سے مار کر دو گول کیے۔ فرانس تین صفر سے جیت گیا۔ اسماعیل زیدان سٹیڈیم میں نہیں تھے کیوں کہ انھیں اپنے چھوٹے پوتے کی دیکھ بھال کرنا تھی۔ تھرام کہتے ہیں: ’جب ریفری کی سیٹی بجی تو میں اپنے بچپن کے دوستوں کی طرف دوڑا، جو سٹینڈ میں سے میچ دیکھ رہے تھے۔ میں نے انگلی سے نشان بنایا، ’یہ پاگل پن ہے۔‘ ہم شور کی وجہ سے بات نہیں کر پا رہے تھے، لیکن آنکھوں آنکھوں میں ایک دوسرے کی بات سمجھ گئے۔‘ فتح کا جشن منانے کے لیے پیرس کی معروف سڑک شانزا لیزا پر دس لاکھ لوگ جمع ہو گئے۔ الجیریائی تارکِ وطن کے بیٹے زیدان کا چہرہ محرابِ فتح پر روشن کیا گیا۔ لوگوں نے نعرے لگانا شروع کر دیے، ’زیدان، صدر۔‘ ڈولوک کہتے ہیں: ’1944 میں آزادی کے بعد سے کبھی اتنی تعداد میں لوگ پیرس کی سڑکوں پر نہیں نکلے تھے۔‘ اس جیت کی علامتی حیثیت واضح تھی۔ یہ صرف ایک ٹیم کی نہیں بلکہ ایک کثیرثقافتی تصور کی جیت تھی۔ اگلے سال کے انتخابات میں فرنٹ نیشل پارٹی کے ووٹ 15 فیصد سے سکڑ کر 5.7 فیصد رہ گئے۔ مصنف لوراں دوبوا کہتے ہیں: ’لی پین نے ٹیم پر حملہ کرنے کے لیے اسے کثیرثقافتی فرانس کی علامت بنا دیا تھا، اس لیے جب ٹیم جیت گئی تو یہ علامت کی فتح تھی۔‘ ’ورلڈ کپ کی یہ فتح فرانس کے ایک متوازی تصور کی جیت تھی۔ یہ تصور کہ ہم سب اکٹھے ہیں، ہم سب ایک ساتھ رہ سکتے ہیں، اور ہر کوئی اسی معاشرے کا حصہ ہے۔‘ اس کے بعد سے فرانس کی فٹبال ٹیم مشکلات کا شکار رہی۔ 2002 کے ورلڈ کپ میں وہ گروپ مرحلے ہی میں باہر ہو گئی۔ یورو 2004 میں بھی اسے ناکامی کا منھ دیکھنا پڑا۔ 2005 میں ٹیم میں سیاست اور آپسی لڑائیوں کی خبریں عام ہو گئیں۔ اب 2015 میں یہی فرانس سٹیڈیم حملے کی زد میں تھا۔ مینوئل دیاس سٹیڈیم کے قریب پہنچے۔ سلیم طورابالی گیٹ ایل پر ٹکٹ چیک کر رہے تھے۔ انھیں بیٹی کی پیغام نے ہلا کر رکھ دیا تھا۔ چند لمحوں بعد ایک شخص سلیم کے پیچھے پیچھے گیٹ میں داخل ہوا۔ اس کی عمر 20 سال اور نام بلال حدفی تھا۔ بلال سٹیڈیم کو نشانہ بنانے والے تین خودکش حملہ آوروں میں سے ایک تھا۔ پریس باکس میں ونسنٹ ڈولوک نے پہلا دھماکہ سنا۔ منٹوں بعد گیٹ ایچ پر ایک اور دھماکہ ہوا۔ فرانسیسی صدر فرانسوا اولاند بھی میچ دیکھنے آئے ہوئے تھے، وہ اٹھ کر باہر چلے گئے۔ تاہم بہت سوں کو پتہ ہی نہیں چلا۔ بم کی آواز لوگوں کے شور میں ڈوب گئی تھی۔ اسی دوران تیسرے حملہ آور نے حملہ کر دیا۔ تماشائیوں میں بھگدڑ مچ گئی۔ وہ ادھر ادھر سے بھاگنے لگے۔ اکثر جا کر میدان میں کھڑے ہو گئے۔ وہ میدان جو 1998 سے ملک کی فتوحات کا سٹیج رہا تھا، اب ایک پناہ گاہ کا روپ دھار چکا تھا۔فرانس: خوف، یقین اور فٹبال
وقتِ اشاعت : June 9 – 2016