|

وقتِ اشاعت :   June 19 – 2016

کوئٹہ : بلوچستان کا بجٹ 2016-17پیش کردیاگیا جس میں امن وامان ، تعلیم اورصحت کیلئے خطیر رقم مختص، ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں اضافہ، 3200کئی آسامیاں تخلیق، ایک ہزار تعلیمی اداروں کو ٹرانسپورٹ مہیا ، تین میڈیکل کالجز کے قیام کے اعلان ، وفاقی حکومت کے تعاون سے صوبے میں آبپاشی کے دس میگا پراجیکٹ شروع کرنے کا اعلان بلوچستان کے اگلے مال سال2016-17 کا2 کھرب89 ارب روپے سے زائد بجٹ پیش کر دیا گیا بجٹ میں 36 ارب روپے سے زائد کا ریکارڈ خسارہ ظاہرکیا گیا جو بلوچستان کی تاریخ میں خطیر لاگت کا حامل خسارہ ہے اگلے مالی سال کے بجٹ میں218 ار ب روپے سے زائد کا غیر ترقیاتی جبکہ71 ارب روپے سے زائد ترقیاتی اخراجات شامل ہے ،تعلیم کیلئے 28ارب 93کروڑ22لاکھ روپے ،صحت کیلئے 17ارب 36کروڑ 77لاکھ روپے مختص کئے گئے ہیں جبکہ امن وامان کی بحالی کیلئے 30ارب 25کروڑروپے مختص کئے گئے ہیں جو موجودہ مالی سال کے مقابلے میں 12فیصد زیادہ ہے ،بجٹ میں 3 ہزار220 نئے آسامیاں پیدا کر نے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں10 فیصد اضافے کااعلان کم سے کم اجرت 13سے بڑھا کر14ہزار رروپے کردی گئی کوئٹہ کو فراہمی آب سکیم کے تحت پٹ فیڈر کینال سے کوئٹہ شہر کو پانی کی فراہمی کیلئے کوئٹہ واٹرسپلائی پروجیکٹ کیلئے 40ارب روپے مختص کرنے کافیصلہ کاگیاہے اس حوالے سے 10ارب روپے آنیوالے مالی سال 2016-17کیلئے مختص کئے گئے ہیں۔صوبائی دارالحکومت کوئٹہ کی خوبصورتی وترقیاتی کاموں کی مد میں 5ارب روپے مختص کئے گئے ہیں ،حکومت چین کے تعاون سے کوئٹہ ماس ٹرانزٹ ٹریم اسکیم کیلئے 2ارب روپے فراہم کئے جائینگے ۔کوئٹہ گرین بس پروجیکٹ کیلئے 1ارب روپے مختص کئے گئے ہیں ،تمام ڈویژنل ہیڈکوارٹرز بشمول گوادر شہر کی اپ گریڈیشن اور خوبصورتی کیلئے 3ارب روپے فراہم کئے جائیں گے ،سٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتالوں میں بہتری لانے کیلئے ایک ارب اور 50کروڑروپے رکھے گئے ہیں ،لوکل کونسلز کیلئے ترقیاتی گرانٹ کی مد میں 5ارب روپے مختص کئے گئے ہیں،اس سال صوبے کے قابل طلباء وطالبات کو لیپ ٹاپ دئیے جائیں گے جس کیلئے 50کروڑروپے مختص کئے گئے ہیں جبکہ جاری اسکیموں کیلئے 10ارب روپے مختص کئے جارہے ہیں۔اجلاس میں آئندہ مالی سال 2016-17کا بجٹ وزیراعلیٰ بلوچستان نواب ثناء اللہ زہری نے ایوان میں پیش کرتے ہوئے کہاکہ موجودہ مخلوط حکومت کے اپنے طے شدہ رہنماء اصولوں کی وجہ سے مثبت نتائج سامنے آرہے ہیں صوبے میں ترقی کا عمل تیز کر نے کی خاطر امن وامان کی بہتری اور سنگین جرائم میں کمی کرکے سازگار معاشی ماحول فراہم کرنے کیلئے خلوص نیت سے ہر ممکن کوشش کی جا رہی ہے۔تعلیم، صحت اور پانی کی فراہمی کو بنیادی اہمیت دی گئی ہیں۔غیر ترقیاتی اخراجات کم کر کے وسائل کو ترقیاتی سر گرمیوں کیلئے استعمال کیا جا رہا ہے۔بے روزگار نوجوانوں کو ملازمت کے مواقع فراہم کئے جا رہے ہیں کرپشن کے خلاف منظم جدوجہد تیز کر دی گئی ہے بجلی کے بحران پر قا بو پا نے کیلئے شمسی توانائی اور دیگر منصوبوں پر کام تیزی سے جاری ہیموجود صنعتی اداروں کی فعالیت اور ان سے منسلک ملازمین کی فلاح وبہبود پر درست سمت میں کام شروع کر دیا گیا ہیخواتین کے معاشی وسیاسی حقوق کا تحفظ اور تمام امتیازی قوانین کا خاتمہ ہماری اولین تر جیح ہے اقلیتوں کے بنیادی وآئینی حقوق کو تحفظ فراہم کیا جا رہا ہے چین پاکستان اقتصادی راہداری کے عظیم منصوبے پر کام جاری ہے۔۔آنے والے دنوں میں گوادر پاکستان کی معاشی ترقی میں انتہائی اہم کردار ادا کرے گا اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے حکومت اس علاقے کی ترقی کیلئے بہت سنجیدہ ہے ہم وفاقی حکومت کے تعاون سے اپنے وسائل کا ایک خاطر خواہ حصہ بہت سے ایسے پروجیکٹ کیلئے مختص کر رہے ہیں جو گوادر کی ترقی کیلئے اہم ہیں ان میں چند پروجیکٹ درج ذیل ہے :۔گوادر میں پانی کی فرہامی کی سہولیات کیلئے آئندہ مالی سال کیلئے بجٹ میں وفاقی حکومت کے تعاون سے خطیر رقم خرچ کی جائیگی ،بلوچستان میں کی جانیوالی سرمایہ کاری سے بے پناہ فوائد حاصل ہونگے مستقبل میں پاکستان کی زرعی اور تجارتی ترقی میں بلوچستان کا بڑا حصہ ہو گا بلوچستان میں بیرونی سرمایہ کاری بڑھانے کیلئے بلوچستان انویسٹمنٹ بورڈ تشکیل دے دیا گیا ہے اسی طرح معدنی پیدوار اور تجارتی سر گرمیوں کا بڑا مرکز بھی آئندہ بلوچستان بنے گا۔ہماری حکومت کی مسلسل کاوشوں کے نتیجے میں بلوچستان کے ترقیاتی عمل عمل میں وفاقی حوکمت کا بھر پور تعاون حاصل ہو رہا ہے اور مختلف شعبوں میں وفاقی اداروں نے فعالیت کا مظاہرہ کیا جاری مالی سال2015-16 کے بجٹ کا ابتدائی تخمینہ(243.528 ارب روپے ) تھا نظر ثانی شدہ بجٹ برائے سال2016-17 کا تخمینہ(253.338 ارب روپے ) ہو گیا 2015-16 کے اخراجات جاریہ کا تخمینہ (189.023 ارب روپے ) تھا جو نظر ثانی شدہ تخمینے میں کم ہو کر(181.853 ارب روپے)رہ گیا۔پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام میں مالی سال 2015-16 میں پی ایس ڈی پی کا حجم54 ارب روپے سے زائد تھا اس میں940 جاری اسکیمیں جبکہ 310 نئے اسکیمیں شامل تھے 2015-16 میں پی ایس ڈی پی پر نظر ثانی کے بعد اس کا حجم 51 ارب روپے سے زائد ہو گیا ہے نظرثانی کے بعد 938 جاری اسکیموں کیلئے 22 ارب روپے سے زائد اور 1349 نئے اسکیموں کیلئے28 ارب روپے سے زائد رقم مختص کئے گئے ہیں انسداد دہشتگرد فورس کو مزید موثر بنا نے کیلئے کوئٹہ میں این ٹی ایف ٹریننگ سینٹر کا قیام عمل میں لایا جا چکا ہے اور اب تک1500 جوان فارغ ہو چکے ہیں اس کے علاوہ خصوصی انسداد دہشتگردی فورس کا قیام عمل میں لایا جائیگا حکومت بلوچستان نے اپنے پا نچ سالہ ایجوکیشن سیکٹر پلان مرتب کیا ہے جس کے تحت نئے سکولوں کا قیام موجودہ سکولوں کی اپ گریڈیشن اور بچوں کے کلاسز کا اجراء کیا جائیگا اس کے ساتھ ساتھ تعلیمی معیار کو بہتر بنا نے کیلئے نقل کی روجحان کا مکمل خاتمہ جیسے مہم کا آغاز کیا گیا ہے جس کے تعلیمی نظام پر نہایت مثبت اثرات مرتب ہو رہے ہیں بلوچستان ایجو کیشن انڈوومنٹ فنڈ کو پانچ ارب روپے سے بڑھا کر6 ارب روپے کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے آئندہ مال سال2016-17 بلوچستان کے تمام اضلاع کے پرائمری سے لے کر کالج ویونیورسٹی تک کے 14 ہزار بلا صلاحیت ہونہار وپوزیشن ہولڈر طلباء وطالبات کو ملکی وغیر ملکی مستند تعلیمی اداروں کیلئے وظائف دیئے جائینگے 2016-17میں تعلیم کیلئے28 ارب92 کروڑ 22 لاکھ روپے مختص کئے گئے جو رواں مالی سال کے مقابلے میں 15 فیصد زیادہ ہے صوبے کے تمام سکولوں میں فرنیچر ، لکھائی پڑھائی کا سامان ، سائنسی آلات ٹاٹ اور کھیلوں کے سامان کی کمی دور کر نے کیلئے 69 کروڑ 14 لاکھ روپے رکھے گئے ہیں اور80 پرائمری سکولوں کو مڈل کا درجہ دیا جائیگا جبکہ70 مڈل سکولوں کو ہائی کا درجہ دینے کیلئے منصوبہ کی گئی ہے ورلڈ بین کی تعاون سے گلوبل پارٹنر شپ فار ایجو کیشن کا3 سالہ منصوبہ منظور کر لیا جس کے تحت 725 نئے پرائمری سکولوں کا قیام موجودہ سکولوں کو بلڈنگ کی فراہمی اور خواتین اساتذہ کی تقرری عمل میں لائی جائیگی جسٹس افسرز کو سپروائزری اسٹاف کیلئے 400 موٹر سائیکلیں اور50 سے زائد گاڑیاں فراہم کی جا رہی ہے تاکہ سکولوں کی نگرانی کی نظام کو بہتر بنا کر سکولوں کی بندش اور اساتذہ کی غیر حاضری سے روکھا جا سکے ٹیکسٹ بک کی چھپائی اور سپلائی کیلئے45 کروڑ روپے کی خطیر رقم مختص کی گئی تاکہ ہر بچے کو مفت کتابیں کی فراہمی یقینی بنائے جا سکے آنیوالے مالی سال2016-17میں ایک ہزار سکولوں کیلئے ٹرانسپورٹ کی فراہمی بھی تجویز کی گئی صوبے میں اعلیٰ تعلیم کے فروغ کیلئے تربت یونیورسٹی لورالائی یونیورسٹی کا قیام عمل میں لایا گیا تربت یونیورسٹی اور لو رالائی میں درس وتدریس کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے اس کے علاوہ بلوچستان یونیورسٹی کیمپس خضدار کو ایک الگ یونیورسٹی شہید سکندر زہری یونیورسٹی کا درجہ دے دیا گیا ہے جس پر اگلے مالی سال میں ترقیاتی کام کا آغاز کر دیا جائیگا اور اس یونیورسٹی کیلئے پہلے ہی سے2848 ملین روپے کی خطیر رقم مختص کر دی گئی صوبے میں اس وقت چھ کیڈٹ کالجز قائم ہیں جن میں کیڈٹ کالج مستونگ، پشین، جعفرآباد، قلعہ سیف اللہ، پنجگور اور کوہلو شامل ہیں ان کالجز میں تعلیمی سر گرمیاں جاری ہے جبکہ کیڈ کالج نوشکی میں اسی تعلیمی سال سر گرمیوں کا اغاز کر دیا جائیگا اس طرح اسی مالی سال سے کیڈٹ کالج قلعہ عبداللہ اور خاران پر بھی تعمیراتی کام کا آغاز کر دیا گیا ہے اس وقت صوبے میں لڑکوں اور لڑکیوں کیلئے105 انٹری ڈگری اور پانچ ٹیکنیکل کالجز اپنی تعلیمی خدمات سرانجام دے رہے ہیں جس میں تقریبا70 ہزار طلباء وطالبات زیر تعلیم ہے اس وقت کالجز سائیڈ کی کل40 نئی اور55 جاری اسکیموں پر ترقیاتی کام جاری ہے یہ ترقیاتی اسکیمات صوبے میں کالجوں، تیکنیکی اداروں، ریذیڈنشل کالجوں اور یونیورسٹیوں کے جال بچانے میں معاون موددگار ثابت ہونگے اگلے سال ضلع کوئٹہ میں نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنا لوجی کے کیمپس کے قیام کیلئے ترقیاتی کام آغاز کر دیا جائیگا این یو ایس ٹی کے کیمپس کے قیام کیلئے زمین خریدنے کی غرض سے40 کروڑ روپے مختص کئے گئے ہیں اس طرح جاری مال سال کے دوران صوبے کے کالجوں کو فرنیچر کی فراہمی کیلئے10 کروڑ روپے فراہم کئے گئے ہیں تاکہ ان کالجوں میں تعلیمی سر گرمیاں بخوبی انجام پا سک یں جاری مال سال کے دوران صوبے کے طلباء وطالبات کو تعلیمی اداروں تک آسانی رسائی دینے کیلئے تقریبا11 کروڑ روپے کی رقم سے دور دراز اضلاع کے کالجوں کیلئے 13 کوسٹرز اور4 بسیں خرید ی گئیں اس مقصد کیلئے نئے مالی سال میں بھی11 کروڑ روپے مختص کئے گئے ہیں صوبائی حکومت اور پنجاب حکومت کی مشترکہ سکالر شپ اسکیم کے تحت صوبے کے400 طلباء پنجاب کے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم ہیں آئندہ مالی سال شعبہ صحت کیلئے غیرترقیاتی بجٹ کی مد میں17 ارب 36 کروڑ77 لاکھ روپے مختص کئے گئے جو پچھلے سال کے مقابلے میں 12 فیصد اضافہ ہے رواں مالی سال وزیراعظم قومی صحت پروگرام کا آغاز بلوچستان سے کر دی اگیا ہے اس پروگرام کے تحت غریب اور حقدار شہریوں کو مفت علاج فراہم کیا جائیگا جاری مالی سال کے دوران زچہ وبچہ کی صحت کے پروگرام کے تحت زچگی سے متعلق ایمر جنسی اور دوسرے علاج کی سہولیات کو ضلعی ہسپتال میں فعال کر دیا گیا ہے جس کی معالیت1 ارب 68 کروڑ روپے ہیں اسی پروگرام کے تحت جاری مالی سال کے دوران ایمبولینس رورل ہیلتھ سینٹر کی سطح تک دے دی گئیں2016-17 میں مزید ایمبولینسیں فراہم کی جائیگی صوبے میں غذائیت کے پروگرام کے تحت نیوٹریشن پالیسی کی منظوری دی گئی ہے اس مقصد کیلئے ایک پی سی I بھی منظور کیا جا چکا ہے جس کی مالیت تقریبا1492 ملین روپے ہیں حفظاتی ٹیکو کا پروگرام اے پی آئی کے تحت کوریج کو بہتر بن انے کیلئے70 نئے سینٹرز کھولے جائینگے اس کیلئے نیا پی سی I جس کی مالیت تقریبا8000 ملین روپے ہے منطوری کیلئے زیر غور ہے ڈاکٹروں کی کمی پورا کر نے کیلئے تین میڈیکل کالجز خضدار، لورالائی اور تربت میں قائم کئے جا رہے ہیں بی ایم سی ہسپتال کوئٹہ کو ایم آر آئی سسٹم جو گزشتہ دو سال غیر فعال تھا اس کو بھی فعال کر دیا گیا ہے اور دیگر جدید مشینری فراہم کی جا رہی ہے طب کے شعبے میں اعلیٰ تعلیم ہمیشہ سے ترجیح رہی ہے اس سلسلے میں کوئٹہ پوسٹ گریجویٹ میڈیکل ادارہ قائم کیا گیا ہے ادارہ برائے نفسیات کا قیام عمل لا یاگیا آئندہ مالی سال 2016-17 میں تقریبا1 ارب57 کروڑ 96 لاکھ روپے کی مفت ادویات کی دی جائیگی بلوچستان میں واحد ٹراما سینٹر جوکہ سول ہسپتال میں قائم ہے اس کو آلات اور دیگر ضروری کی فراہمی سے فعال کیا جا رہا ہے اس کے علاوہ صوبے میں پانچ مزید ٹراما سینٹر ز کی تجویز غور ہے حکومت پنجاب کے تعاون سے ادارہ برائے امراض قلب کا قیام عمل میں لایا جائیگا۔۔ اگلے مالی سال کے دوران بلڈوزروں کی پچاس ہزار گھنٹے ضرورت مند زمینداروں میں تقسیم کئے جائیں گے تاکہ مزید رقبہ زیر کاشت لایا جاسکے ۔ آنے والے مالی سال 2016-17میں محکمہ لائیواسٹاک کے لئے تقریباً 3 ارب 10 کروڑ اور 50 لاکھ روپے مختص کئے گئے ہیں جو موجودہ مالی سال کے مقابلے میں تقریباً 20 فیصد زیادہ ہے ۔ نئے مالی سال کے دوران جانوروں کی مختلف بیماریوں کے علاج کے لئے 2 کروڑ اور 85 لاکھ روپے مختص کئے گئے ہیں۔ ۔ انہوں نے کہا کہ ہماری حکومت غیر قانونی شکار اور جالوں کے استعمال پر مکمل پابندی لگانے اور مقامی ماہی گیروں کے حالت زار اور کاروبار کو بہتر بنانے کے لئے درجہ ذیل عملی اقدامات اٹھانے میں ہر طرح سے سنجیدہ ہے ۔ آنے والے مالی سال 2016-17 میں محکمہ ماہی گیری کے لئے تقریباً 83 کروڑ 97لاکھ روپے مختص کئے گئے ہیں جو موجودہ مالی سال کے مقابلے میں تقریباً 35 فیصد زیادہ ہے ۔ آنے والے مالی سال میں حقدار ماہی گیروں کو بلا سود قرضے دیئے جائیں گے جس پر ایک ارب روپے لاگت کا تخمینہ ہے ۔ انہوں نے کہا کہ پسنی ہاربر اتھارٹی کو دوبارہ فعال کردیا گیا ہے جس سے ہزاروں ماہی گیر مستفید ہوں گے ۔ ۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں 6 میونسپل کمیٹیوں کو کارپوریشنز کا درجہ دے دیا گیا ہے جن میں ایک مربوط پروگرام کے تحت ترقیاتی منصوبوں کی مرحلہ وار تکمیل کی جائے گی ۔ اس کے علاوہ دیہی علاقوں میں بھی بنیای سہولیات فراہم کرنے کے لئے اقدامات اٹھائے جائیں گے ۔اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے مخلوط حکومت کا عزم ہے کہ اس محکمے کے تمام ضلعی دفاتر کو بلا تاخیر فعال کیا جائے ۔ انہو ں نے کہا کہ رواں مالی سال 2016-17کے دوران لوکل کونسلز کو 50 کروڑ روپے کے ترقیاتی فنڈز فراہم کئے گئے ہیں اسی طرح خطیر رقم کی لاگت سے کوئٹہ شہر میں پارکنگ کی سہولیات کو بہتر بنایا جارہا ہے ۔ تمام اضلاع میں صوبائی سنیٹشن پالیسی کے تحت صحت و صفائی کے جامع پروگرام شروع کئے جائیں گے ۔ صوبے کے ہر ضلعی ہیڈ کوارٹر کے لئے آگ بجھانے والی گاڑیاں فراہم کی جارہی ہیں ۔ مرحلہ وار سب اضلاع میں لوکل گورنمنٹ اور چیئرمین ضلع کونسل کے دفاتر تعمیر کئے جارہے ہیں ۔ مرحلہ وار سب اضلاع ، میونسپل کمیٹیوں اور میونسپل کارپوریشنوں کے چیئرمینوں کو گاڑیاں دی جائیں گی اسی طرح تمام چیئرمینوں اور وائس چیئرمینوں کو لوکل گورمنٹ ایکٹ 2010 کے تحت اعزازیہ دیا جائے گا ۔ گزشتہ مالی سال کے دوران بین الاقوامی معیار کے مطابق تقریباً 9 سو کلو میٹر بلیک ٹاپ سڑکیں بنائی گئیں اور آنے والے مالی سال رواں 2016-17 کے دورا ن مزید 12 سو کلو میٹر بلیک ٹاپ سڑکوں کو ہدف رکھا گیا ہے ۔ نواب ثناء اللہ زہری نے کہا کہ آنے والے مالی سال 2016-17میں محکمہ معدنیات کے لئے 1 ارب روپے 63 کروڑ 58 لاکھ روپے مختص کئے گئے ہیں جو موجودہ مالی سال کے مقابلے میں تقریباً5 فیصد زیادہ ہے ۔ بلوچستان میں معدنی دولت پر قبضے کے غیر قانونی لیز منسوخ کرنے پر تیزی سے کام جاری ہے ۔ مائننگ انڈسٹری کی ترقی پر خاص وجہ دی جائے گی اس کی ترقی و توسیع میں جدید آلات و مشینری کے استعمال کی حوصلہ افزائی کی جائے گی ۔ مائننگ کے ورکرز کو سوشل سیکورٹی اور دیگر قانونی مراعات کا حقدار بنایا جارہا ہے ۔ ریکوڈک کا بحران جس کی وجہ سے ترقیاتی کام تاخیر کا شکار ہے کو ترجیحی بنیادوں پر شفاف انداز میں حل کرلیا جائے گا ۔ ریکوڈک کیس کے لئے 50 کروڑ روپے مختص کئے گئے ہیں اس منصوبے کو جلد شفاف طریقے سے شروع کردیا جائے گا ۔ سیندک منصوبے سے متعلق وفاق کے ساتھ بامقصد بات چیت کی جارہی ہے تاکہ پراجیکٹ کی ملکیت احسن طریقے سے صوبے کو منتقل ہوسکے اور آئندہ مالی سال سے اس منصوبے کو زیادہ منافع بخش طریقے سے شروع کردیا جائے گا ۔آنے والے مالی سال 2016-17 میں محکمہ آب پاشی کے لئے ایک ارب 82 کروڑ 35 لاکھ روپے مختص کئے گئے ہیں ۔ وفاقی حکومت کی تعاون سے آب پاشی کے 10 بڑے منصوبے زیر تکمیل ہیں جس پر تقریباً 42 ارب روپے خرچ آئے گا ان منصوبوں پر عمل درآمد سے زیر زمین پانی کی سطح میں بہتری آئے گی اور ہزاروں ایکڑ اراضی زیر کاشت لائی جاسکے گی ۔ انہوں نے کہا کہ مخلوط صوبائی حکومت نے تاریخ میں پہلی مرتبہ صبوائی لیبر پالیسی کی منظوری دیدی ہے اور اس ضمن میں تیرہ لیبر قوانین کو صوبائی سطح پر نافذ کرنے کا کام آخری مراحل میں ہے ۔ فنی مہارت اور تیکنیکی تعلیم فراہم کرنے کے غیر غیر فعال اداروں کو نجی شعبے کے تعاون سے فعال بنایا جارہا ہے جو ہمارے بے روزگار نوجوانوں کو ہنر مند بنا کر روزگار کے قابل بنانے میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں 14 ٹیکنیکل ٹریننگ سینٹر برائے مرد اور 6 ٹیکنیکل سینٹرز برائے خواتین صوبے کے مختلف اضلاع میں 18 شعبوں میں نوجوان نسل کو ٹریننگ دے رہے ہیں ۔ علاوہ ازیں 13 مختلف پسماندہ تحصیلوں میں مرکزی حکومت کے تعاون سے فنی تربیت دی جارہی ہے ۔ صوبائی کابینہ نے اپنے اجلاس میں گندم کی خریداری کے عمل میں تاخیر کے ذمہ دار آفیسران کے خلاف انکوائری کا فیصلہ کیا ہے البتہ گندم کی خریداری کے لئے پاسکو کے حدف کو بلوچتان میں بڑھانے کے لئے حکومت بلوچستان کو التجا ء بھجوائی گئی ہے تاکہ زمینداروں کو نقصان سے بچایا جاسکے ۔انہوں نے کہا کہ اس سال بھی صوبائی حکومت نے تمام لوگوں کو سستے داموں آٹے کی فراہمی کو یقینی بنان کے لئے گندم کی فی سو کلو بوری کی قیمت 2800 روپے مقرر کی ہے جس سے صوبائی خزانہ پر سبسڈی کی مدمیں تقریباً ڈھائی ارب روپے کا اضافی بوجھ پڑے گا ۔ وزیراعلیٰ نواب ثناء اللہ زہری نے بتایا کہ اس وقت صوبے کے مختلف ضلعوں میں انڈسٹریل اسٹیٹ موجود ہے جن میں کوئٹہ ، ڈیرہ مراد جمالی ، گوادر ، لسبیلہ شامل ہیں جبکہ بوستان ، خضدار ، تربت اور پسنی میں نئے انڈسٹریل اسٹیٹس کے قیام کے لئے مزید خاطر خواہ اقدامات کئے جائیں گے ۔ اس وقت صوبے بھر میں سمال انڈسٹریز کے تحت کم و بیش ایک سو 51 سے زائد تربیتی مراکز ہیں جن میں سہولیات بہم پہنچانے کی کوششیں کی جارہی ہیں ۔صوبائی حکومت خواتین کے حقوق ،تحفظ اورفلاح وبہبود کیلئے کوشاں ہے تاکہ خواتین کو زندگی کے ہرشعبے میں مردوں کے شانہ بشانہ لایاجاسکے ،اس مقصد کیلئے رواں مالی سال میں اس محکمے کیلئے نہ صرف آسامیاں دی گئی ہیں بلکہ اگلے مالی سال اس محکمے کیلئے 10کروڑاوربیس لاکھ روپے کابجٹ رکھاگیاہے ۔ایک جامع ڈائریکٹریٹ کا قیام عمل میں لایاگیاہے ،ماتحت دفاتر خضدار ،کوئٹہ اور سبی میں قائم کردئیے گئے ہیں اور مزید دفاتر کیچ ،نصیر آباد اورلورالائی میں کھولے جارہے ہیں ،اینٹی ہراسمنٹ ایکٹ بلوچستان اسمبلی سے منظور ہوچکاہے اورتمام محکموں میں ذیلی کمیٹیاں تشکیل دیدی گئی ہیں اس کے علاوہ گھریلو تشدد کیخلاف بل کی منظوری بھی دیدی گئی ہے ۔۔وزیراعلیٰ نے کہاکہ آئندہ مالی سال 2016-17میں تنخواہوں اور پینشن کے حوالے سے صوبائی حکومت ملازمین اور پینشنرز کیلئے وفاقی حکومت کے اعلان کردہ طرز پر اضافے کرتے ہوئے سرکاری ملازمین کے تنخواہوں میں اضافے کی طرز پر مزدور طبقے کی بہبود کیلئے شرح کو 13ہزار روپے سے بڑھا کر 14ہزار روپے کیاجارہاہے آئندہ 14ہزار روپے ماہوار سے کم تنخواہ پر ملازم رکھنا قابل جرم سزا تصور ہوگا۔اقلیتیوں کے بنیادی وآئینی حقوق کوتحفظ فراہم کرتے ہوئے ان کے پانچ فیصد کوٹہ پر سختی سے عملدرآمد کی جائیگی اور خلاف ورزی کرنیوالوں کوسخت سزا دی جائیگی ۔دہشتگردی سے شہید ہونے والے سرکاری ملازمین کے لواحقین کی تعلیم،صحت ،گھر ،تنخواہ اورپنشن کیلئے اخراجات بھی حکومت بلوچستان اداکررہی ہے جبکہ عام شہر جو دہشتگردی میں زخمی یا شہید ہوا ہوں کیلئے بھی خاطر خواہ رقم فراہم کی گئی ہے ۔انہوں نے کہاکہ مالی سال2016-17 کیلئے 289.356ارب روپے کابجٹ تجویز کیاگیاہے اس میں 71.182ارب روپے کا ترقیاتی بجٹ بھی شامل جس میں بیرونی تعاون کاحصہ 6.181ارب روپے ہے ،انہوں نے کہاکہ اس سال غیر ترقیاتی بجٹ میں 218.174ارب روپے کا ہے جس میں ریو نیو اخراجات کا تخمینہ 184.761 ارب روپے اور کیپٹل اخراجات کیلئے 33.413ارب روپے شامل ہیں صوبے کے وسائل سے آمدن کاتخمینہ 9.120ارب روپے ہیں جبکہ وفاق سے حاصل ہونیوالی آمدن کاتخمینہ 252.871ارب روپے ہیں جبکہ اس سال 2016-17کے بجٹ کا خسارہ 36.485ارب روپے ہوگا۔ترقیاتی بجٹ انہوں نے کہاکہ مالی سال 2016-17کی پی ایس ڈی پی کا سائز 71.182ارب روپے تجویز کیاگیاہے جس میں تعلیم ،صحت ،امن وامان ،آبنوشی ،مواصلات اور پانی وتوانائی کے شعبوں کو ترجیح دی گئی ہے بے جا اور غیر ترقیاتی اخراجات کو کم کرکے وسائل کوترقیاتی سرگرمیوں کیلئے استعمال کیاجارہاہے ۔وزیراعلیٰ کاکہناتھاکہ ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتالوں میں بہتری لانے کیلئے ایک ارب اور 50کروڑروپے رکھے گئے ہیں انہوں نے کہاکہ لوکل کونسلز کیلئے ترقیاتی گرانٹ کی مد میں 5ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔وزیراعلیٰ بلوچستان کاکہناتھاکہ اس سال صوبے کے قابل طلباء وطالبات کو لیپ ٹاپ دئیے جائیں گے جس کیلئے 50کروڑروپے مختص کئے گئے ہیں جبکہ جاری اسکیموں کیلئے 10ارب روپے مختص کئے جارہے ہیں انہوں نے کہاکہ حکومت بلوچستان مالی مشکلات کو مد نظر رکھتے ہوئے اوربجٹ خسارہ کم کرنے کیلئے سختی سے اٹھائے گئے اقدامات پر عمل پیرا ہے ،حکومت بلوچستان نے مالی سال 2015-16کے دوران نہ صرف ٹیکس اصلاحات کیں بلکہ مالی معاملات میں بہتری کی بھرپورکوششیں کیں انہوں نے کہاکہ مالی نظم وضبط کی غرض سے پبلک پروکیورمنٹ ریگولیٹر اتھارٹی قائم رکدی گئی ہے تاکہ غیرضروری معاملات کی جانچ پڑتال ہوسکے۔انہوں نے کہاکہ حکومت بلوچستان نے مالی سال 2015-16کے دوران ٹیکس اصلاحات کی مد میں خا طر خواہ بہتری آئی ہے اوراس سلسلے میں بلوچستان ریونیو اتھارٹی کا قیام بھی عمل میں لاناہے جس نے 8ماہ کے قلیل عرصہ کے دوران جی ایس ٹی آن سروس کی مد میں تقریباََ2ارب 20کروڑروپے سے زائد ٹیکس وصول کیا جوپچھلے سالوں کے دوران کی گئی وصولیوں کی نسبت نمایاں بہتری ہے ،انہوں نے کہاکہ ایک اورخوشی کی بات یہ ہے کہ صوبے کے وسائل میں مالی سال 2015-16کے دوران تقریباََ2ارب روپے کا اضافہ ہورہاہے وزیراعلیٰ نے کہاکہ لگژری گاڑیوں کی خریداری پر مکمل پابندی عائد رہے گی ،انہوں نے کہاکہ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی تشکیل دیدی گئی ہے اور اس کی کارروائیوں اور فعالیت کیلئے تسلسل کو قائم رکھاجائیگا وزیراعلیٰ نے کہاکہ پی ایس ڈی پی کے تحت مختلف منصوبوں پر مروجہ قوانین کے تحت عملدرآمد کویقینی بنایاجارہاہے حکومتی خرچے پر بیرون ملک علاج ومعالجے ،سیمیناروں ،کانفرنسوں اورورکشاپوں میں شرکت پر عائد پابندی پرسختی سے عملدرآمدکیاجائیگا۔ اورحکومتی خرچے پر ہوٹلوں میں میٹنگ وتقریبات کے انعقاد پر بھی مکمل پابندی ہوگی۔وزیراعلیٰ نے کہاکہ مالی سال 2015-16کے دوران نئے ریٹائرڈ ہونیوالے ملازمین کی مینول پنشن سسٹم ختم کرکے کمپیوٹرائزڈ نظام کے ذریعے پنشن کااجراء صوبے کے تمام اضلاع میں شروع کردیاگیاہے اور اس کے ساتھ ساتھ پرانے پنشنرز کیلئے آسانیاں پیداہونگی بلکہ گھوسٹ پنشنرز کابھی خاتمہ ممکن ہوسکے گا جس سے حکومت کو کروڑوں روپے کی بچت ہوگی ۔انہوں نے کہاکہ حکومت سالانہ تقریباََ12ارب روپے پنشن کی مد میں ادا کررہاہے جو حکومتی خزانے پر بہت بڑا بوجھ ہے جس کیلئے حکومت نے مالی سال 2016-17 کے دوران اپنے پنشن فنڈ میں تین ارب روپے کی انوسٹمنٹ کرنے کاارادہ رکھتی ہے اور ہرسال اس میں بتدریج اضافہ کیاجائیگا تاکہ پنشن کے اخراجات اس فنڈ سے حاصل ہونیوالی آمدنی سے پورے کئے جاسکیں۔انہوں نے کہاکہ اس کے علاوہ حکومت بلوچستان نے مالی سال 2015-16 کے دوران اپنے ملازمین کی بہبود کیلئے بنولنٹ فنڈ اور گروپ انشورنس سکیم کے تحت 40ہزار سے زائد ملازمین کومراعات میں تقریباََ2ارب روپے سے زائد ادائیگی کردی ہے ۔انہوں نے کہاکہ مالی سال 2015-16 کے دوران حکومت نے بلوچستان بورڈ آف انوسٹمنٹ جیسے اہم ادارے کا قیام عمل میں لایاہے جو صوبے میں پرائیویٹ سیکٹر انوسٹمنٹ کی حوصلہ افزائی کرنے کیلئے انتہائی اہم رول ادا کرے گا۔اسی طرح صوبے میں مالی معاملات اور نظم ونسق کی بہتری کیلئے بین الاقوامی اداروں کی مدد سے اصلاحات کا پروگرام شروع کیاجارہاہے جس نے اس حوالے سے بنیادی رپورٹ مرتب کردی جو جلد ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی کے سامنے پیش کی جائیگی اور اس کی سفارشات کی روشنی میں مالی نظم ونسق کی بہتری کے حوالے سے اصلاحات کاایجنڈا ترتیب دیاجائیگا انہوں نے کہاکہ آنے والے مالی سال 2016-17میں ایک جدید مالی نظم ونسق کا پروگرام شروع کیاجائیگا۔