|

وقتِ اشاعت :   July 21 – 2016

ایک بار پھر سندھ حکومت اور وفاقی فورسز کے درمیان تنازعہ پیدا ہوگیاہے تنازعہ کی وجہ رینجرز کی لاڑ کانہ میں ایک کارروائی ہے سندھ کی منتخب حکومت نے اس پر شدید اعتراض کیا ہے اور کہا ہے کہ حکومت سندھ نے وفاقی فورس کو صرف اور صرف کراچی میں امن وامان بحال کرنے کے لئے بلایا ہے نہ کہ پورے سندھ کے لئے ۔ بلکہ کراچی میں صرف چار مسائل کو حل کرنے کی مدد کے لئے ۔ ان میں دہشت گردی ‘ اغواء برائے تاوان ‘ بھتہ خوری شامل ہیں لیکن حالیہ مہینوں میں رینجرز نے دفاتر پر چھاپے مارے اور وزراء کو باقاعدہ اجلاس کے اندر گرفتار کیا اور سرکاری دستاویزات بغیر سندھ حکومت کی اجازت کے قبضہ میں لے لیں ۔ وہ وفاق کے ماتحت نہیں ہے وفاق سندھ کی حکومت کو احکامات نہیں دے سکتا اس لئے حکومت سندھ کی درخواست پر رینجرز کو تعینات کیا گیا ہے اور اس کو خصوصی ٹاسک دیا گیا ہے کہ وہ حکومت سندھ کی مدد کرے اور امن و امان بحال کرنے کے لئے پولیس کی کراچی میں مدد کرے لیکن وفاقی حکومت میں بعض حلقے سندھ کی حکومت کو ایک ماتحت حکومت سمجھتے ہیں اور اس کو احکامات صادر فرماتے رہتے ہیں اسی لئے سندھ کے وزیراعلیٰ نے دبے الفاظ میں شدید احتجاج کیا ہے اور لاڑکانہ میں رینجزز کی کارروائیوں کی مخالفت کی ہے جس سے مرکزی وزیر داخلہ اور دوسرے متکبر وفاقی وزراء سیخ پا ہیں اور سندھ حکومت کو دبے الفاظ میں دھمکیاں دے رہے ہیں۔ ہم اپنے ان کالموں میں اپنی رائے کا برملا اظہار کرتے رہے ہیں کہ صوبائی حکومتیں پاکستان کے آئین کے تحت آزاد اور خودمختار عوام کی نمائندہ حکومتیں ہیں یہ سرکاری ملازمین کی یا وفاقی حکومت کی ماتحت حکومتیں نہیں ہیں لہذا ان پر حکم چلانا بند کریں کیونکہ ایسی کارروائیوں کی مضمرات انتہائی سنگین ہوسکتے ہیں اس لئے یہ ضروری ہے کہ صوبوں کو زیادہ سے زیادہ خودمختاری دی جائے اور وفاق کے اختیارات کم سے کم کیے جائیں تاکہ پاکستان میں رائج بادشاہت کا خاتمہ ہوجائے اور مقامی مسائل کا حل مقامی طورپر تلاش کیاجائے اس لئے پاکستان کے اکابرین نے یہ مدبرانہ فیصلہ کیا تھا کہ وفاقی اکائیوں کو زیادہ سے زیادہ اختیارات حاصل ہوں گے اور وفاق صرف اور صرف دفاع اور خارجہ امور کا ذمہ دار ہوگاباقی تمام معاملات میں وفاقی اکائیاں آزاد اور خودمختار ہوں گی اورضرورت کے تحت ان کے اندرونی معاملات میں مددکی جائے گی ۔ یہی قرار داد پاکستان کی اصل روح ہے جس پر ایمانداری سے عمل کرنے سے ملک زیادہ مضبوط ہوگا ۔یا حکمران یہ اعلان کریں کہ ان کا 1940ء کی قرار داد پاکستان سے کوئی تعلق نہیں وہ غلط تھا یہ نیا پاکستان ہے یہاں وفاق کا وجود نہیں ہے اور یہاں پر وحدانی طرز کی حکومت قائم کی جائے گی جس کو حرف عام میں صدارتی نظام کہا جارہا ہے ۔ عمران خان جیسے غیر سیاسی رہنماء نے اس کی حمایت کردی اور یہ معلوم کرنے کی کوشش نہیں کی کہ اس کے کیا مضمرات ہوں گے ۔ایوب کی آمریت واضح طورپر ایک وحدانی طرز حکومت تھی جس کے خلاف پورا پاکستان اٹھ کھڑا ہوگیا تھا ۔ اور مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی سب سے بڑی وجہ ملک میں وحدانی طرز حکومت ایوب خان کے آمریت کی شکل میں مسلط رہی ۔ اس کے دوران جو ملک بھر میں ہنگامہ شروع ہوا وہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی پر ختم ہوا ۔ وفاق کو مغربی پاکستان کی وفاقی اکائیاں بحال کرنی پڑیں ۔ اب مسئلہ صرف زیادہ سے زیادہ خودمختاری کا ہے اور وفاق کے اختیارات کم سے کرنے کا ہے اگر سرکاری ملازمین وفاقی اکائیوں پر اپنا غیر ضروری دباؤ بر قرار رکھیں گے تو اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ ان اکائیوں کے عوام بد ظن ہوں گے جو ملک کے وسیع تر مفاد میں نہیں ہے ۔