وفاقی وزیر برائے فوڈ سیکورٹی اپنے افسروں کے ہمراہ کوئٹہ تشریف لائے اور یہ نوید دے گئے کہ وفاق گہرے سمندر میں دوبارہ ماہی گیری شروع کرنے کا خواہش مندہے ۔ مدعایہ ہے کہ صوبائی سمندری حدود صرف بارہ میل تک محدود ہیں اور وفاق بیس میل سے لے کر 200میل کے سمندری حدود میں اور گہرے سمندر میں ماہی گیری کے حقوق کمپنی اور لوگوں کو دے گا جو اس میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ اس اجلاس کی صدارت وزیراعلیٰ نواب ثناء اللہ زہری کررہے تھے انہوں نے اپنے ابتدائی کلمات میں یہ واضح کردیا کہ ان کی حکومت غیر قانونی ماہی گیری اور خطر ناک وائر نیٹ کے استعمال کی ہرگز اجازت نہیں دے گی اور ہر حال میں ان کی حکومت غیر ماہی گیروں کے جائز مفادات کی نہ صرف تحفظ کرے گی بلکہ سمندری حیات کو ہر حال میں تحفظ دیا جائے گا کیونکہ یہ آئندہ نسلوں کی امانت ہے اور اس کا تحفظ یقینی ہے۔ ان کلمات سے صاف اور واضح بات یہ نظر آتی ہے کہ حکومت بلوچستان کے ان معاملات میں ضرور تحفظات ہوں گے بہ حیثیت صحافی ہم ماہی گیری شعبہ پر گزشتہ چالیس سالوں سے رپورٹنگ کرتے آرہے ہیں ۔ 1960ء کی دہائی میں سندھ کے ایک ٹھگ افسر نے کوریا اور چینی کمپنیوں سے مل کر گہرے سمندر میں مچھلیاں پکڑنے کا لائسنس حاصل کر لیا درجنوں ٹرالر بلوچستان کے ساحل پر پہنچ گئے اور انہوں نے وہ تباہی مچائی جس کی مثال ماہی گیری کی تاریخ میں ملنی مشکل ہے ۔
مچھلی صرف چند فٹ تک موجود ہوتی ہے گہرے سمندر میں مچھلی یا سمندری حیات کا وجود ہی نہیں ہوتا یہ سمندری حیات ساحل کے قریب ہوتا ہے ۔ اس لئے درجنوں کی تعداد میں ساحل کے قریب ان ٹرالروں نے مکمل جھاڑو پھیر دیا اور سمندری حیات کو نا قابل تلافی نقصان پہنچایا بلکہ بل ٹرالرز Bull Trawlers استعمال کیے اور دونوں طرف سے ٹرالر چلا کر سمندری حیات کا خاتمہ کردیا ۔ مچھلی نام کی کوئی چیز ان سے بچ نہ سکی ان ٹھگوں نے بلوچستان کے ساحل پر مادر شپ Mother Shipکھڑی کردی ۔ اس پر پروسیسنگ کرکے مچھلی اورجھینگا براہ راست دوسرے ملکوں کو روانہ کیا۔ وفاقی حکومت کو اس کی کانوں کان خبر نہ ہوئی اورنہ ہی کمپنی نے حکومت کو کوئی ٹیکس ادا کیا اور مچھلی مفت میں لے گئی ۔ صرف انہوں نے لائسنس فیس ادا کی اور سرکاری افسروں اور ساحل کے محافظوں کو رشوت سے نوازا تاکہ ان کا کاروبار سالوں چلے ۔ چونکہ مچھلی اور دوسرے سمندری حیات گہرے سمندر میں موجود ہی نہیں ہے اس لئے یہ بڑے بڑے ٹرالر مچھلیوں کا شکار کرنے ساحل کے قریب آئے تھے اس وقت صوبائی ساحلی حدود صرف تین میل تھے یہ وہاں آ کر اس تین میل کی پٹی میں شکار کرتے رہے ۔ اس کی وجہ سے بعض خطر ناک حادثات بھی پیش آئے ،آئے دن غریب اور چھوٹے بلوچ ماہی گیروں کے جال تباہ ہوجاتے اور ٹرالرز ان کو روند ڈالتے تھے، کئی بار چھوٹی ماہی گیری کشتیاں بھی ٹھکر اکر تباہ ہوگئیں ان کو معاوضہ نہیں ملا۔ اخبارات میں شور مچ گیا اور ہم اخبار نویسوں نے 1980ء کی دہائی میں یہ ثابت کیا کہ گہرے سمندر میں مچھلی نہیں ہے یہ شکار ساحل پٹی کے قریب اور صوبائی سمندری حدود میں کرتے ہیں کیونکہ شکار صرف یہیں ہے گہرے سمندر میں نہیں چونکہ کورین‘ چینی ‘ جاپانی بلکہ یہاں تک کہ بھارت کے ٹرالرز افسروں کو رشوت دے کر گہرے سمندر کے نام پر ساحلی پٹی پر شکار کرتے رہے ۔ایک بارمیرین فشریز کے ڈائریکٹر جنرل کو کورین کمپنی سے رشوت لیتے ہوئے رنگے ہاتھوں گرفتار کیا گیا ۔ اس کے بعد گہرے سمندر میں ماہی گیری کا ڈرامہ ختم ہوا ۔ اخبارات میں خبروں کے بعد ان تمام کے لائسنس منسوخ کردئیے گئے ۔ بعض دفعہ بھارت غیر ملکی ٹرالرز کو استعمال کرتے تھے اور اس کے لئے جاسوسی بھی کرتے تھے کیونکہ اکثر بیرونی ٹرالرز پر بھارتی ملاح اور اسٹاف تھا ۔ اب فوڈ سیکورٹی کی وزارت کا وجود فراڈ ہے اور 18ویں ترمیم میں فوڈ سیکورٹی کے نام پر وزارت قائم رکھی گئی ہے ۔ اس لئے ماہی گیری کو صرف اور صرف صوبائی محکمہ رہنے دیں اس میں مداخلت نہ کریں ماہی گیری سے رشوت خور افسر ‘ وزراء رشوت نہیں کما سکیں گے۔