|

وقتِ اشاعت :   July 25 – 2016

اسلام آباد : الیکشن کمیشن کے ارکان کی تقرری کی آئینی مدت 28جولائی کو ختم ہو رہی ہے، حکومت اور اپوزیشن تاحال ناموں پر اتفاق پر تقسیم ہے، الیکشن کمیشن میں چارں صوبوں کا ایک ایک رن ہوتا ہے، 22ویں ترمیم کے بعد اب اعلیٰ عدلیہ کے ججز کے علاوہ سینئر بیوروکریٹس اور ٹیکنو کریٹس بھی الیکشن کمیشن کارکن بن سکتا ہے، ذرائع کے مطابق بلوچستان اور سندھ کے ممبران پر اتفاق ہوچکا ہے، بلوچستان سے چند روز قبل ہائی کورٹ سے مستعفی ہونے والے جج جسٹس (ر)شکیل بلوچ سندھ سے سابقہ خاتون وفاقی سیکرٹری ممکنہ ارکان ہونگے، توقع کی جارہی ہے آج ہونے والے حکومتی واپوزیشن اجلاس میں ارکان کے ناموں پر اتفاق ہو جائے تاہم موجودہ سیاسی صورتحال کو مد نظر رکھتے ہوئے کہا کہ امکان ہے آج کے اجلاس میں بھی کوئی فیصلہ نہیں ہوگا، تاہم وفاقی حکومت کے با اثر ارکان کو توقع ہے کہ ناموں پر اتفاق ہو جائے گا ،الیکشن کمیشن آف پاکستان میں خاتون رکن کی تقرری متوقع ہے اور اس حوالے سے پارلیمانی کمیٹی جلد انتخابی عمل کو حتمی شکل دینے والی ہے۔ذرائع کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن کے ارکان کی تقرری کے حوالے سے حکومت اور اپوزیشن میں اتفاق رائے ہوگیا ہے اور فریقین کی جانب سے 12 ناموں پر مشتمل علیحدہ علیحدہ فہرستیں پارلیمانی کمیٹی کو بھیج دی گئی ہیں جن میں ہر صوبے کیلئے ایک نام مشترک میڈیا رپوٹس کے مطابق ذرائع کا کہنا ہے کہ بھیجی جانے والی فہرستوں میں ناموں کی ترتیب مختلف ہوسکتی ہے لیکن ہر صوبے کیلئے ایک نام دونوں فہرستوں میں مشترک ہے۔ فہرستوں میں جو نام مشترک ہیں ان میں ایک خاتون بھی شامل ہیں جو الیکشن کمیشن کی رکن بن کر تاریخ رقم کرسکتی ہیں، ایک بڑی سیاسی جماعت نے تجویز دی ہے کہ کمیشن میں اعلیٰ سطح پر خواتین کی بھی نمائندگی ہونی چاہیے۔ایک اور ذریعے نے انکشاف کیا کہ جن خاتون کا نام فہرست میں شامل ہے ان کا تعلق صوبہ سندھ سے ہے، وہ ایک ریٹائرڈ بیوروکریٹ ہیں اور پہلی اور واحد سیکریٹری ڈیفنس رہنے کا اعزاز رکھتی ہیں۔حکومت کے مطابق الیکشن کمیشن کے چار ارکان کی مدت ملازمت 10 جون کو ختم ہوچکی ہے، قانون کے تحت نئے ارکان کا انتخاب 45 یوم کے اندر ہونا ضروری ہے اور اس لحاظ سے 25 جولائی تک نئے ارکان کی تقرری ہوجانی چاہیے۔آئین کے آرٹیکلز 213 اور 218 چیف الیکشن کمشنر اور الیکشن کمیشن کے ارکان کی تقرری کے طریقہ کار کی وضاحت کرتے ہیں۔قانون کے تحت وزیر اعظم اس بات کے پابند ہیں کہ وہ اپوزیشن رہنماؤں سے مشاورت کے بعد ہر خالی عہدے کیلئے تین نام پارلیمانی کمیٹی کو بھیجیں جو کسی ایک نام کی منظوری دے گی۔اگر وزیر اعظم اور اپوزیشن میں اتفاق رائے نہ ہوسکے تو دونوں کی جانب سے پارلیمانی کمیٹی کو علیحدہ علیحدہ فہرستیں بھیجی جاتی ہیں۔اس حوالے سے 25 جولائی کو پارلیمانی کمیٹی کا اجلاس ہوگا جس کی سربراہی وزیر اطلاعات پرویز رشید کریں گے اور ان کے پاس ہر صوبے کیلئے ایک نام کی منظوری دینے کیلئے محض چند گھنٹے ہی ہوں گے۔واضح رہے کہ گزشتہ ماہ الیکشن کمیشن کے چار ارکان کی ریٹائرمنٹ سے قبل صدر پاکستان ممنون حسین نے 22 ویں آئینی ترمیم کی منظوری دی تھی جس کے تحت تقرری کیلئے اہلیت کے معیار کو تبدیل کیا گیا تھا۔نئے قانون کے تحت سرکاری ملازمین اور ٹیکنوکریٹس چیف الیکشن کمشنر اور الیکشن کمیشن کے رکن بننے کے اہل ہوں گے جبکہ سپریم کورٹ کے حاضر سروس اور ریٹائرڈ ججز بھی ان عہدوں پر فائز ہوسکتے ہیں۔ترمیم کے مطابق الیکشن کمیشن کے چار میں سے دو ارکان ڈھائی برس بعد ریٹائر ہوجائیں گے جبکہ بقیہ دو ارکان دو سال بعد ریٹائر ہوں گے اور ایسا صرف ایک بار ہوگا، اس سے قبل الیکشن کمیشن کے چاروں ارکان ایک ہی وقت میں ریٹائر ہورہے تھے۔الیکشن کمیشن چاروں ارکان کی ریٹائرمنٹ کے بعد سے غیر فعال ہے اور ضمنی انتخابات کا انعقاد تاخیر کا شکار ہوگیا ہے۔اس کے علاوہ وزیر اعظم پاکستان اور ان کے اہل خانہ کے آف شور اسکینڈل میں نام سامنے آنے کے بعد پاکستان تحریک انصاف(پی ٹی آئی) کی جانب سے ان کی نااہلی کے حوالے سے دائر درخواست کی سماعت بھی نئے ارکان کی تقرری تک ملتوی کردی گئی ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ آئندہ ہفتے عہدے سنبھالنے کے بعد الیکشن کمیشن کے نئے ارکان پر کام کا بوجھ بہت زیادہ ہوگا۔