|

وقتِ اشاعت :   August 1 – 2016

زہری /منگچر : ساڑھے پانچ لاکھ افغان مہاجر خاندانوں کی موجودگی میں قابل ہے نہ ہی قانون کے ساتھ درست تصور کئے جائیں گے صوبوں کی از سر نو تشکیل کر کے ڈیرہ غازی خان ، راجن پور ، خان گڑھ سمیت دیگر تاریخی بلوچ علاقوں کوبلوچستان میں شامل کیا جائے پشتون بھائی ہمارے ساتھ مطمئن نہیں تو اپنے لئے الگ صوبہ بنا لیں ہمیں کوئی اعتراض نہیں بلوچ سرزمین پر مزید افغان مہاجرین کو مزید برداشت نہیں کیا جائے بلوچستان سیاسی یتیم خانہ نہیں بلوچستان حکومت افغان مہاجرین سے متعلق پالیسی کا اعلان کرے جس سے مرکزی و دیگر صوبوں نے واضح پالیسی اپنائی ہے بلوچ قوم قلم کو ہتھیار بناکر ہی اکیسویں صدی کے چیلنجز کا مقابلہ کر سکتی ہے ان خیالات کا اظہار بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات آغا حسن بلوچ ایڈووکیٹ ، مرکزی ہیومن رائٹس سیکرٹری موسی بلوچ ، یونس بلوچ ، میر غلام رسول مینگل نے منگچر میں پارٹی ورکروں سے خطاب کرتے ہوئے کیا اس موقع پر قلات کے ضلعی کسان و ماہی سیکرٹری کبیر احمد مینگل ، تحصیل منگچر کے جنرل سیکرٹری عبدالسلام دانش ، ظفر مینگل ، علی محمد لانگو ، جلال مینگل ، حافظ صالح محمد ، حیدر خان ، خان محمد ، رشید احمد اور دیگر موجود تھے اس موقع مقررین نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں مردم شماری تب ہی ہو گی جب افغان مہاجرین کو باعزت طریقے سے ان کے وطن بھیجا جائے 40لاکھ مہاجر خاندانوں کی موجودگی میں مردم شماری اور بلوچستان کے بلوچ جو اپنے علاقوں سے ہجرت کر گئے ہیں ان کی واپس آبادکاری تک مردم شماری کروانا بلوچوں کو دیوار سے لگانے کے مترادف ہے انہوں نے کہا کہ بی این پی صوبوں کی از سر نو تشکیل کیلئے جدوجہد کر رہی ہے تاریخی حوالے سے بلوچ علاقوں کو بلوچستان میں شامل کیا جائے پشتون بھائی اگر ہمارے ساتھ رہنے پر متفق نہیں تو اپنے لئے پشتون علاقوں پر محیط صوبہ بنا لیں ہم ان کی حمایت کریں گے مقررین نے کہا کہ بلوچستان سیاسی یتیم خانہ نہیں کہ چالیس لاکھ افغان مہاجرین کی موجودگی میں مردم شماری کرنے گی افغان مہاجرین کو باعزیت طریقے سے واپس بھیجا جائے مقررین نے کہا کہ اکیسویں صدی کے چیلنجز کا مقابلہ بلوچ قوم قلم کے ہتھیار سے ہی کر سکتی ہے ہمیں چاہئے کہ ہم نوجوانوں کو سیاسی ، شعوری اور فکری طور پر لیس کریں تاکہ وہ جدید دور کے تقاضوں کا باآسانی مقابلہ کر سکیں بی این پی بلوچستان کے جملہ مسائل کے حل کیلئے جدوجہد کر رہی ہے اسی پاداش میں پارٹی کے بے شمار رہنماؤں و کارکنوں ، ہمدردوں کو شہید کیا گیا پارٹی کو ختم کرنے والے خام خیالی میں تھے پارٹیاں عوامی اور نظریاتی طور پر پختہ ہوں اور ان کی جدوجہد کا محور و مقصد عوام کی ترقی و خوشحالی ، تاریخ ، تہذیب ، تمدن کی حفاظت کیلئے ہو ایسی سیاسی جدوجہد کو ختم کرنا ممکن نہیں آج بی این پی بلوچوں کی سب سے بڑی قومی جماعت بن چکی ہے بلوچستان بھر میں آئے روز پارٹی میں عوام کی جوق در جوق شمولیت اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ پارٹی محبوب قائد سردار اختر جان مینگل کی قیادت ہی مسائل سے نجات دلاسکتے ہیں آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم بلوچ قوم کو متحد منظم کر یں جب قومیں اپنی زبان ، ثقافت ،رسم و رسوج اور روایات کو اہمیت دیتے ہیں وہ ختم نہیں ہو سکتیں ہمیں چاہئے کہ ہم اپنے زبانوں ، بلوچ ، براہوی ، کھیترانی کی ترقی و ترویج کیلئے جدوجہد کریں اغیار کی ہمیشہ کوشش رہی ہے کہ ہمیں قبائلی نظام کو دوام دے کر ہمیں باہم دست و گریبان کریں لیکن ہماری کوشش ہونی چاہئے کہ ہم بلوچوں کے تمام قبائل کو آپس میں شیروشکر کریں انہوں نے کہا کہ بڑے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ موجودہ حکومت نے تمام اداروں کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے لسانی بنیادوں پر تعلیمی ادارے چلائے جا رہے ہیں یہاں تک کہ تعلیمی ایمر جنسی کے نام پر بلند و بالا دعوے بے بنیاد ثابت ہوئے وڈھ اور چاکر خان یونیورسٹی کے قیام میں رکاوٹیں کھڑی کی گئیں جس سے ثابت ہوتا ہے حکمرانوں کو قول و فعل میں تضاد موجود ہے انہوں نے کہا کہ فوری طور پر اس قسم کی پالیسیوں کو ترک کر کے وڈھ اور سبی میں یونیورسٹیز کے قیام کو یقینی بنایا جائے ۔