کوئٹہ میں دہشت گردی کے واقعہ میں ستر سے زائد افراد جاں بحق ہوئے ،اتنے ہی زخمی ہوئے ’ بیس سے زائد زخمیوں کی حالت نازک ہے ۔خدشہ ہے کہ ہلاکتوں کی تعداد میں اضافہ ہو سکتا ہے ۔ طالبان کے ایک گروہ نے کوئٹہ میں خودکش حملہ کی ذمہ داری قبول کر لی ہے تاہم یہ نہیں بتایا کہ وکلاء کو کیوں دہشت گردی کا نشایا گیا ۔ عوامی اور انسانی حقوق کے دفاع اور ان کے حقوق کی سربلندی میں وکلاء پیش پیش رہے ہیں اس لئے ان کا سماج بہت زیادہ احترام کرتا ہے اور لوگ انہی سے اکثر رہنمائی بھی حاصل کرتے رہتے ہیں ۔بعض تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ وکلاء سماج کی شعوری سیاست اور معاشرت کا اہم ترین حصہ ہیں اور عوام میں بے حد مقبول ہیں اس لئے ان کو نشانہ بنایا گیا ہے تاکہ سماج میں زبردست بھونچال آئے ۔پولیس اور تفتیشی اداروں کی جانب سے صرف یہ بیانات آئے ہیں کہ حملہ خودکش تھا اور اس میں آٹھ کلو بارودی مواد استعمال ہوا ۔ اس کے علاوہ انہوں نے کوئی معلومات عوام کو فراہم نہیں کیں۔ یہ اپنی نوعیت کا انتہائی خوفناک دہشت گردی کا واقعہ تھا اس لئے وزیراعلیٰ اپنا دورہ مختصر کرکے فوراً کوئٹہ واپس آگئے ، اس کے بعد آرمی چیف اور ملک کے وزیراعظم بھی کوئٹہ اظہار ہمدردی کے لئے پہنچ گئے ۔ انہوں نے اسپتالوں کا دورہ کیا اور بعض لوگوں سے ملاقاتیں کیں شاید حکومت کو اس سے زیادہ پریشانی ہوئی کہ وہ یہ دعویٰ کرتے نہیں تھکتے تھے کہ بلوچستان میں مکمل امن بحال ہوگیا ہے اور دہشت گردوں کی کمر توڑ دی گئی ہے یا انہوں نے راہ فرار اختیار کر لی ہے مگر کوئٹہ کے خودکش حملہ نے یہ ثابت کیا کہ دہشت گرد اپنی پوری دہشت کے ساتھ بلوچستان میں موجود ہیں اور جب چاہیں اور جہاں چاہیں وہ کارروائی کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں ۔ لگتا یوں ہے کہ ان کے گروہ موجودیہیں پر موجود اور خاموش ہیں اور جب ان کو احکامات ملتے ہیں وہ کارروائی کرتے ہیں کوئٹہ کا سانحہ اس کی مثال ہے ۔ اس سے ایک بات صاف اور واضح ہوگئی کہ حکومت کو دہشت گردوں کی سرکوبی کرنے میں کوئی خاص کا میابی حاصل نہیں ہوئی ہے ان کا سیکورٹی پلان کم سے کم بلوچستان اور خصوصاً کوئٹہ میں ناکام ہوگیا ہے دہشت گرد کوئٹہ اور اس کے گردونواح میں قابو نہیںآئے ۔ملا منصور کے قبضے سے پاکستانی شناختی کارڈ اور پاسپورٹ کی برآمدگی اور 1999ء سے ان کی بلوچستان میں موجود گی سے صاف ظاہر ہے کہ ان کے حامی عناصر افغان مہاجریا غیر قانونی تارکین وطن کی شکل میں موجود ہیں۔ ڈی آئی جی ایف سی کے گھر پر خودکش حملہ آور افغان تھا اتنی بڑی تعداد میں مشکوک کردار کے حامل لوگوں کی بلوچستان میں موجودگی کے بعد یہ بات ممکن ہی نہیں ہے کہ بلوچستان میں دیر پا اور پائیدار امن کاقیام ممکن ہوسکے ۔ اگر ریاست پاکستان کو یہ جنگ ہر حال اور ہر صورت میں جیتنی ہے تو سب سے پہلے غیر قانونی تارکین وطن کو بلوچستان سے فوری طورپر نکال دیں اور افغان مہاجرین کو واپس بھیج دیں یا ان کو مہاجر کیمپوں تک محدود کریں تاکہ وہ کسی قسم کی کارروائی نہ یا ان میں معاونت نہ کرسکیں، شک ہے کہ وہ سہولت کار کا کردار ادا کررہے ہیں ملک میں لاکھوں کی تعداد میں مشکوک لوگوں کی موجودگی کے بعد یہ بات ممکن ہی نہیں ہے کہ حکومت کا سیکورٹی پلان کامیاب ہو۔ صوبائی وزیر داخلہ کا ذاتی غصہ حکومت مخالفین کے خلاف ختم ہوتا نظر نہیں آرہا ہے حالانکہ بلوچستان کے نوجوان دہشت گردی میں ملوث نہیں ہیں مجموعی طورپر یہ تاثر ٹھیک ہے ماسوائے اکا دکا واقعات کے ۔ ان کو یہ غصہ ہے کہ بلوچوں کے خلاف نیشنل ایکشن پلان میں کچھ بھی نہیں ہے ۔ یہ ان کو معلوم ہونا چائیے کہ وہ خودکش حملوں میں ملوث نہیں، کوئی بلوچ خودکش حملہ کرنے اسلام آباد یا لاہور نہیں گیا ان کی ناراضگی اپنے ہی علاقوں اور پہاڑوں تک محدود ہے ۔ اس کو صرف اور صرف ایک احتجاج سے زیادہ اہمیت نہیں دینی چائیے کیونکہ گزشتہ تین بار حکومت بلوچوں سے امن معاہدہ کر چکی ہے ۔ اب بھی اس بات کے قومی امکانات ہیں کہ بلوچوں کے ساتھ آخر کار امن معاہدہ ہو جائے گا۔ اس میں جیت اور ہار کی بات نہیں ہے یہ سیاست ہے اور سیاست میں کبھی بھی اور کچھ بھی ہوسکتا ہے اوروزیر کا مخالف اس کرسی پر آکر بیٹھ بھی سکتا ہے ۔